1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی معیشت میں بہتری، کیا یہ سچ ہے؟

بینش جاوید
29 جولائی 2020

پاکستانی وزارت خزانہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دروان حکومتی پالیسیوں، محصولات  اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کے باعث ملکی معیشت میں مثبت رجحان متوقع ہے۔

https://p.dw.com/p/3g6qI
تصویر: AFP/Getty Images/P. J. Richards

پاکستانی وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وبا کی دوران دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی معیشت سکڑی لیکن پاکستان کے مرکزی بینک کی پالیسیوں، حکومت کے احساس پروگرام اور مکمل لاک ڈاؤن کے بجائے اسمارٹ لاک ڈاؤن جیسے اقدامات کے باعث جولائی میں پاکستانی معیشت میں بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ مالی سال دو ہزار بیس میں پاکستان کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2019 کی نسبت مالی سال 2020 میں پاکستان میں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 78 فیصد کم ہوا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ پاکستان نے امپورٹس یا درآمدات کو کافی بڑی تعداد میں کم کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بیرون ملک سے بھیجی جانے والی رقوم سے حاصل ہونے والے زر مبادلہ میں بھی قریب دو ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی مالی سال 2020 میں 88 فیصد اضافے کے ساتھ 2.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

کیا واقعی پاکستانی معیشت بہتری کی طرف جا رہی ہے؟

اسلام آباد میں صحافی شہباز رانا معاشی امور کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تو کافی عرصے سے کم کیے جانے کی کوششیں جارہی ہیں لیکن یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے کہ ملک کی اقتصادی حالت میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آئے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' ایک امید کی کرن تو نظر آرہی ہے لیکن ابھی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔‘‘ شہباز رانا کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے مثبت اشارے دیے جارہے ہیں لیکن ساتھ ہی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ

 اگر عید الاضحیٰ پر کورونا وائرس کی وبا بڑھتی ہے تو  شرح نمو میں گراوٹ کا خدشہ بڑھ جائے گا۔

ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھنے کے حوالے سے شہباز رانا کا کہنا تھا کہ مالی سال 2020 میں حکومت کو پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیوں کے لائسنسز کی فیس موصول ہوئی ہے جس سے 'فارن ڈائریکٹ انوسٹمینٹ‘ یا ایف ڈی آئی میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ دیر پا اضافہ نہیں ہے۔

حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

نیشنل یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ سائنسز کے بزنس اسکول کے ڈین ڈاکڑ اشفاق احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 2018 میں بیس ارب ڈالر تھا اب یہ خسارہ صرف تین ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ پاکستان کے فارن ایکسچینج ریزروز میں بھی اضافہ ہو ا ہے لیکن جن پالیسیوں کے تحت کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کیا گیا انہی پالیسیوں کے باعث ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا۔

ریمیٹنسس یا ترسیل رقم میں اضافے کے حوالے سے ڈاکٹر اشفاق احمد کہتے ہیں کہ یہ اضافہ اس لیے ہوا ہے کیوں کہ کورونا وبا کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بہت سے پاکستانیوں کو نوکریوں سے نکالا گیا ہے اور ان لوگوں نے اپنی جمع شدہ رقم پاکستان بھجوائی ہے۔  تاہم ڈاکٹر اشفاق ا‌حمد کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیوں کہ ان حالات میں حکومت کے پاس بہت کم آپشنز ہیں۔ دنیا بھر میں معیشتیں سکڑ رہی ہیں اور پاکستان اس دنیا کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا،'' پاکستان کی  ایکسپورٹس تب ہی بڑھیں گی جب دنیا کے دوسرے ممالک کی معیشت بہتر ہوگی۔ ایسا نہیں لگتا ہے کہ مالی سال 2021 میں کوئی بہت بڑی مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ مالی سال 2021 میں پاکستان کی معیشت میں شرح نمو ایک فیصد سے بڑھنے کی توقع ہے لیکن آبادی دو فیصد سے بڑھ رہی ہے اس کا مطلب ہے کہ ملک میں فی کس آمدنی کم ہوگی۔‘‘