1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی معاشرہ اور ہم جنس پرستی

ارسلان خالد28 اگست 2013

پاکستان میں کئی دہائیوں سے ہم جنس پرست رازداری کے پردے کے پیچھے چھپتے رہے ہیں تاکہ وہ خود کو ایک قدامت پسند مسلم معاشرے میں بدنام ہونے سے بچا سکیں۔

https://p.dw.com/p/19Y6Z
تصویر: picture-alliance/dpa

ان میں سے بہت سے جنہوں نے اپنا ہم جنس پرست ہونا ظاہر کیا انہیں معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا ان کے خاندان والوں اور دوستوں نے ان سے تعلق ترک کر لیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہم جنسی پرستی ایک گناہ ہے اور اس کے لیے سزائیں موجود ہیں۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق معاشرتی حوالے سے ناپسندیدہ سمجھے جانے والے ہم جنس پرست مرد، خواتین اور دوہری جنسی رغبت رکھنے والے لوگ پاکستانی معاشرے میں اب بھلے سست سہی مگر مستحکم جگہ بنا رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ اس برادری کے افراد کے لیے ایک ویب سائٹ کا آغاز کیا گیا جہاں یہ لوگ ایک دوسرے کو اپنے تجربات بتا سکتے اور اپنے مسائل پر بات کر سکتے ہیں۔

اس ’کیویر‘ نامی ویب سائٹ کے بانی فاخر نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے بتایا، ’’اس ویب سائٹ کی وجہ ہماری زندگی کی کہانی ہے۔ ہم اپنی برادری کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ وہ تنہا ہیں۔ ہمیں اب تک بہت زبردست ریسپانس موصول ہوا ہے۔‘‘

اس ویب سائٹ کے اب تک بننے والے ارکان میں سے 44 فیصد خواتین ہیں جبکہ 56 فیصد مرد حضرات ہیں۔ زیادہ تر افراد کی عمریں 19 سے 35 برس کے درمیان ہیں۔ فاخر کے مطابق یہ ویب سائٹ انگریزی زبان میں ہے لیکن زیادہ تر لوگ اسے با آسانی استمعال کر سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں زیادہ تر انٹرنیٹ صارفین بنیادی انگریزی سمجھتے ہیں۔

نعمان کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ ایک مرد ہم جنس پرست ہے۔ اسے حال ہی میں نجی بینک کی اپنی ملازمت اس لیے چھوڑنا پڑی کیونکہ اس کے ساتھی اس کے ہم جنس پرست ہونے کا مذاق اڑتے تھے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا، ’’اس طرح کے پلیٹ فارم کا ہونا جہاں ایک جیسی ذہنیت کے لوگ مل سکیں نہایت ہی خوش آئند بات ہے۔‘‘

اعتدال پسند اسلامی رہنما مفتی منیب الرحمان کا اس حوالے سے کہنا ہے، ’’یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سب کو کنٹرول کرے اور ایسے قوانین بنائے جس سے اس طرح کے گناہ گار لوگوں پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگ سکے۔‘‘

پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے ترجمان کامران علی کا کہنا ہے، ’’حکومت پہلے ہی اس ویب سائٹ پر موجود مواد کی جانچ پڑتال کر رہی ہے اور اگر کچھ بھی قابل اعتراض ہوا تو اسے فوری طور پر بلاک کر دیا جائے گا۔‘‘

پاکستان میں صنفی امور کی ایک ماہر فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ ابھی وہ وقت بہت دور ہے جہاں آپ جنسیت کے مسائل پر عوام کے سامنے بات کر سکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اگر کچھ افراد اس برادری کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں کرنے دینا چاہیے لیکن یہ ہر گز آسان نہیں ہے۔‘‘

ایک حالیہ مطالعے کے مطابق پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہم جنس پرستوں کے لیے بہت کم برداشت موجود ہے۔

ویب سائٹ کے بانی فاخر کا کہنا ہے، ’’ہمیں بہت زیادہ توقعات نہیں ہیں کہ بہت جلد کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو جائے گی۔ پاکستان کے موجودہ حالات انتہائی سنگین ہیں فی الحال ہماری کوشش ہے کہ انٹرنیٹ پر اپنی جگہ بنائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کریں جو یقیناﹰ بڑی تبدیلی لے کر آئیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم اس ویب سائٹ کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلا سکیں۔‘‘