پاکستانی محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں دھندلاہٹ کا شکار کیوں؟
17 نومبر 2024عالمی سطح پر زمین کے درجہ حرارت میں اضافے، شدید ہوتی جا رہی ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسموں کے بدلتے ہوئے دورانیوں کے سبب غیر معمولی نوعیت کے موسمیاتی حالات اور قدرتی آفات اب کوئی نئی بات نہیں رہے۔ اس صورت حال میں توقع یہ کی جا رہی تھی کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے، موسمیاتی پیش گوئی کا نظام پہلے سے بہتر کام کرتا۔
لیکن گزشتہ کئی برسوں سے دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں ماضی کے مقابلے میں کم قابل اعتماد اور شفافیت کے بجائے دھندلاہٹ سے عبارت ہوتی ہیں۔ یہ بات اس لیے باعث تشویش ہے کہ اگر موسمیاتی پیش گوئیاں درست اور قابل اعتماد نہیں ہوں، تو ان کی مدد سے انتہائی شدید موسموں کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات کا قبل از وقت یا بروقت تدارک بھی مشکل تر ہو جاتا ہے۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے چیف میٹیورولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کے بقول پاکستان کا موسمیاتی نیٹ ورک کافی محدود ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کے برابر رقبے والے کسی بھی ملک میں بین الاقوامی معیارات کے مطابق کم از کم بھی 353 موسمیاتی اسٹیشن ہونا چاہییں جبکہ ملک کا موجودہ موسمی مشاہداتی نیٹ ورک صرف 195 یونٹوں پر مشتمل ہے۔
ایک دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک اپنے ہاں موسمیاتی مشاہدے کے لیے اپنے سیٹلائٹ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کا حریف ہمسایہ ملک بھارت بھی اپنے موسمیاتی سیٹلائٹ سے کام لیتا ہے۔ مگر پاکستان اسی کام کے لیے اپنے پڑوسی ممالک کے سیٹلائٹس پر انحصار کرتا ہے۔ تاہم پاکستانی ماہرین موسمیات کے مطابق عالمی بینک کی طرف سے نرم شرائط پر دیے جانے والے ایک قرضے کے تحت بہت جلد ایسے سپر کمپیوٹر حاصل کر لیے جائیں گے، جن کے ذریعے موسمیاتی پیش گوئیوں کا مقامی ماڈل بہتر بنایا جا سکے گا۔
پاکستان کو انتہائی نوعیت کی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کس طرح کے شدید اثرات کا سامنا ہے اور ان کے تدارک کے لیے کیا کچھ کیا جا رہا ہے، اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے ذمے دار قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) سے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ترجمان سارہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کو انتہائی نوعیت کی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث، جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں اچانک سیلاب، خشک سالی، شدید گرمی کی لہریں، گلیشیئرز کا پگھلتے جانا اور زرعی پیداوار میں کمی سب سے نمایاں ہیں۔
سارہ ملک کے مطابق، ''ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث نہ صرف ملکی معیشت متاثر ہو رہی ہے بلکہ انسانی صحت اور زندگیوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس کے علاوہ ساحلی علاقوں میں سطح سمندر میں اضافہ اور جنگلاتی اراضی میں کمی جیسے مسائل بھی سامنے آ رہے ہیں۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ ان چیلنجز سے نمٹا کیسے کیا جا سکتا ہے، این ڈی ایم اے کی ترجمان نے کہا کہ موسمیاتی مشاہدہ گاہوں کے بہتر نظام، مؤثر منصوبہ بندی، بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور عوامی آگہی میں اضافہ کر کے انتہائی نوعیت کے موسمیاتی حالات سے ہونے والے نقصانات کو کافی کم کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا، ''موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں کمی کے لیے بین الاقوامی تعاون اور فنانسنگ بھی اشد ضروری ہیں۔‘‘
پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے لیے قوانین کے نفاذ کی صورت حال کیا ہے، اس بارے میں ماحولیاتی قوانین کے ماہر احمد رافع عالم نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہ حکومت نے تحفظ ماحول ایکٹ کے ذریعے گرین ہاؤس گیسوں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے قانون سازی تو کی، مگر پالیسی سازی اور قوانین پر عمل درآمد میں ناکامی کے باعث یہ قانون سازی اب تک مؤثر ثابت نہیں ہو سکی۔
احمد رافع عالم نے بتایا کہ پاکستانی صوبہ پنجاب میں فضائی آلودگی اور ہوا کے معیار کی پیمائش کا طریقہ کار اور اس کا انڈکس بین الاقوامی اداروں کے انڈکس سے مختلف ہے۔ لیکن لاہور میں بہت سے شہری نجی طور پر بھی ایئر کوالٹی مانیٹر کرتے ہیں۔
ان کے بقول ہوتا یہ ہے کہ پرائیویٹ مانیٹرنگ کرنے والے شہریوں کا ایئر کوالٹی ڈیٹا حکومتی ڈیٹا سے مختلف اور زیادہ ہوتا ہے۔ ماضی میں تو ایک وزیر ماحولیات نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
تحفظ ماحول سے متعلقہ امور کے اس قانونی ماہر کے الفاظ میں، ''پہلے تو حکومت اپنے ایئر کوالٹی ڈیٹا کو حقیقتاﹰ معیاری بنائے۔ غیر معمولی حد تک آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں اور ٹرانسپورٹ کے مالکان کو سزائیں دے اور پھر جو ماحولیاتی قوانین موجود ہیں، ان کے مکمل نفاذ کو یقینی بنائے۔ اس کے علاوہ لاہور اگر ایک عرصے سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے، تو وہاں الیکٹرک بسوں اور الیکٹرک کاروں کو رواج کیوں نہیں دیا جاتا؟‘‘
پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کون کون سے ادارے مل کر کوششیں کر رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر کوآرڈینیشن شائستہ خان اچکزئی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''پاکستان میں اس سارے معاملے کو دیکھنے کے لیے تین ادارے ہیں۔ ایک محکمہ موسمیات، جو موسمیاتی مشاہدوں کے بعد رپورٹنگ اور پیش گوئی کرتا ہے۔ دوسری ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ وزارت ہے، جو کئی متنوع عوامل کی جانچ پڑتا کرتی اور موسمیاتی پیش گوئیوں کو علاقائی اور عالمی تناظر میں دیکھتی ہے۔ اس کے بعد تیسرا ادارہ این ڈی ایم اے ہے، جس کا کام قدرتی آفات سے لاحق خطرات میں کمی اور ان آفات کا مقابلہ کرنا ہے۔‘‘
شائستہ خان اچکزئی نے بتایا کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں این ڈی ایم اے فوری امدادی کارروائیوں، متاثرین کی بحالی اور ضروری وسائل کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے اور یہ سب کچھ محکمہ موسمیات، صوبائی ڈیزاسٹر اتھارٹیز، پولیس، فوج اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2022ء کے سیلاب کے بعد سے این ڈی ایم اے نے اب تقریباﹰ ڈیڑھ سو کارکنوں پر مشتمل اپنا ایک ایسا ایمرجنسی آپریشن سینٹر بھی قائم کر رکھا ہے، جو دیگر ملکی اداروں اور ان کے ماہرین کے ساتھ مل کر 24 گھنٹے کام کرتا ہے۔
پاکستانی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے سمن آباد کی رہنے والی سائرہ طارق ان شہریوں میں سے ایک ہیں، جو ملکی محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں کو اعتماد سے زیادہ شبے کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں غلط زیادہ ثابت ہوتی ہیں اور درست کم۔ ہم نے اپنی بیٹی کی شادی، جس دن رکھی تھی، اس دن کے لیے اچھی دھوپ کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ مگر ہماری ساری تقریب آندھی، طوفان اور تیز بارش کی نذر ہو گئی تھی۔‘‘