1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی قبائلی علاقے میں جاسوسی کرنے والے القاعدہ کے نشانے پر

3 نومبر 2011

پاکستان کی قبائلی پٹی میں القاعدہ کی جانب سے حکومت اور امکاناً امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے والے مشتبہ افراد کے اغوا اور بعد میں ان کی ہلاکت کا سلسلہ شروع ہے۔ شمالی وزیرستان میں ایک خاص گروپ اس عمل میں مصروف ہے۔

https://p.dw.com/p/134Ol
تصویر: AP

قبائلی علاقے میں امریکہ اور پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے والے افراد القاعدہ اور اس کے حامی پاکستانی طالبان کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ شبے کی بنیاد پر ایسے قبائلی افراد کو اغواء کرنے کے بعد خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعد میں انہیں ہلاک کر کے سڑک کنارے پھینک دیا جاتا ہے۔ ایسے بدنصیب افراد کی لاشوں کے ساتھ اغواکاروں کی جانب سے بینر بھی لگا ہوتا ہے کہ امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے والوں کا حشر ایسا کیا جائے گا۔

حال ہی میں ایک رہائی پانے والے شخص کے بدن کی کئی ہڈیاں تشدد کے عمل کے دوران توڑ نے کے ساتھ ساتھ اس کے پاؤں میں الیکٹرک مشین کے ذریعے سوراخ بھی کیے گئے تھے۔ اسی طرح فروری سن 2009 کے بعد بے شمار افراد اغوا کے بعد پرتشدد موت سے دوچار ہو چکے ہیں۔ اندازوں کے مطابق اب تک تقریباً ڈھائی سو اشخاص جاسوسی کے شبے میں مار دیےگئے ہیں۔

Superteaser NO FLASH Pakistan Terror Jalaluddin Hakkani Grenzgebiet Afghanistan
شمالی وزیرستان میں حقانی گروپ بھی اہم ہےتصویر: AP

عموماً جاسوسی پر مامور افراد امریکی اہلکاروں کو سیٹلائٹ کے ذریعے انتہاپسندوں کے ٹھکانے کی اطلاع دیتے ہیں اور اس اطلاع پر ڈرون کے ذریعے میزائل داغے جاتے ہیں۔ انہی افراد کی اطلاعات کے تحت پہلے عطیہ عبدالرحمان کو اگست میں اور پھر اس کے جان نشین حفص شاہری کو تین ہفتوں کے بعد ہلاک کردیا گیا تھا۔ القاعدہ کی جانب سے اس جاسوسی کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے ایک ملیشیا سرگرم عمل ہے۔

اس ملیشیا کا نام خفیہ ذریعوں کے مطابق اتحادِ مجاہدینِ خراسان ہے۔ اس کا موجودہ سربراہ ایک پینتیس سالہ سعودی شہری ہے جو مقامی لوگوں میں مفتی عبدالجبار کے نام سے مشہور ہے۔ وہ سن 2002 سے پاکستانی قبائلی علاقے میں مقیم ہے۔ اسے مقامی روایات اور پشتو زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ خراسان تنظیم کے سرگرم کارکنوں کی تعداد دو ہزار بیان کی جاتی ہے۔ ان میں سے ساٹھ فیصد کا تعلق وسطی ایشیائی ریاستوں سے ہے۔ بقیہ میں بیس فیصد عرب ملکوں اور باقی قبائلی انتہاپسندوں کے علاوہ صوبہ پنجاب کے بنیاد پرست ہیں۔

اتحادِ مجاہدینِ خراسان نے جاسوسی کے شبے میں اغوا کیے جانے والے افراد سے پوچھ گچھ یا ان کے زندگی و موت کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک پندرہ رکنی شوریٰ یا کونسل مقرر کر رکھی ہے۔ خراسان تنظیم کی دس جیلیں میران شاہ، میر علی اور دتہ خیل میں قائم ہیں۔ ان میں جاسوسی کے شبے میں اغوا کیے گئے افراد کو رکھا جاتا ہے۔ اتحادِ مجاہدینِ خراسان کے کارکن سخت گیر مؤقف کے حامی ہیں اور کسی درمیانی راستے کو قطعاً پسند نہیں کرتے۔

BIldergalerie Flüchtlingskrise im Swattal Talibankämpfer
قبائلی انتہاپسند بھاری اسلحے سے لیس ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

جاسوسی کے انسداد کے لیے سرگرم ملیشیا کا صدر دفتر شمالی وزیرستان کے شہر میر علی کے مقام مشی خیل میں قائم ہے۔ یہ ملیشیا جماعت اسلامی یونین کی برانچ بتائی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی یونین بنیادی طور پر وسطی ایشیائی ملک ازبکستان کی انتہاپسند تنظیم اسلامی تحریک برائے ازبکستان کا حصہ خیال کی جاتی ہے۔ قدیمی اور قابل اعتماد تعلق کی بنیاد پر اب القاعدہ نے پاکستانی قبائلی علاقے میں اس تنظیم کو صف اول میں لا کھڑا کیا ہے۔ یہی تنظیم یورپی ملکوں میں نئے جہادیوں کی بھرتی پر مامور ہے۔

اتحادِ مجاہدینِ خراسان کی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے اس کے شمالی وزیرستان کے چند جنگی سرداروں کے ساتھ اختلافات بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ ان میں خاص طور پر حافظ گل بہادر کا نام لیا جاتا ہے۔ گل بہادر نے ایک پمفلٹ کے ذریعے اتحادِ مجاہدینِ خراسان کے کارکنوں کو جانوروں سے تعبیر کرتے ہوئے ان کے مظالم کو اسلام کے منافی قرار دیا ہے۔

رپورٹ: عابد حسین ⁄ ڈی پی اے

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں