1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوج پر تنقید کرنے والے منظور پشتین پھر گرفتار

5 دسمبر 2023

پاکستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کو صوبہ بلوچستان میں حراست میں لے لیا گیا۔ ایک صوبائی وزیر کے مطابق انہیں ''اشتعال انگیز تقاریر کرنے‘‘ پر حراست میں لیا گیا ہے اور ممکنہ طور پر آج رہا کر دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/4ZnSa
منظور پشتین کی چمن میں ایک مظاہرے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے تصویر
منظور پشتین کی چمن میں ایک مظاہرے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ایک تصویرتصویر: Mohammad Usman/DW

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کو صوبہ بلوچستان کے شہر چمن سے کل پیر کے روز پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔ بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے مطابق ان کو آج منگل کو ممکنہ طور پر رہا کر کے ''صوبے سے نکال دیا جائے گا۔‘‘

پاکستانی حکام کے مطابق کل پیر کو چمن میں ایک دھرنا دیا گیا تھا، جس کے شرکاء پاک افغان سرحد کے آر پار آزادانہ شہری نقل و حرکت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ منظور پشتین شام کے وقت ان سے خطاب کر کے جب بلوچستان ہی کے شہر تربت کی طرف روانہ ہوئے، تو ان کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کی گرفتاری

 کابل اور دہلی سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو پی ٹی ایم سے کیوں نہیں؟

جان اچکزئی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ منظور پشتین کو ''اشتعال انگیز تقاریر کرنے اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے پر‘‘ حراست میں لیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ کو ممکنہ طور پر آج منگل کے دن رہا کر کے ''صوبے سے نکال دیا جائے گا۔‘‘

منظور پشتین کی چمن میں ایک مظاہرے میں شرکت
منظور پشتین کی چمن میں ایک مظاہرے میں شرکتتصویر: Mohammad Usman/DW

چمن کے ڈپٹی کمشنر اطہر عباس نے بھی منظور پشتین کی گرفتاری کی تصدیق کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منظور پشتین کے صوبہ بلوچستان میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔

اطہر عباس نے گزشتہ روز مقامی میڈیا کے سامنے بھی یہ بیان دیا تھا اور ساتھ ہی کہا تھا کہ منظور پشتین کی گاڑی سے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ بھی کی گئی تھی، جس کے بعد ان کو حراست میں لے لیا گیا۔

لیکن پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے ایکس پر ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ منظور پشتین کی حراست سے پہلے حکام کی جانب سے ان کے قافلے پر فائرنگ کی گئی تھی۔

منظور پشتین 2018ء میں منظر عام پر آئے تھے، جب انہوں نے افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے پشتونوں سے مبینہ بدسلوکی کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا۔

اس مہم کے تحت وہ بلوچستان میں بھی جلسے کرتے رہے ہیں، جہاں پشتونوں اور بلوچوں نے بھی ملکیفوج پر ایسے الزامات عائد کیے ہیں۔ لیکن ملکی حکام ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

م ا / م م (اے ایف پی، ایکس)