پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں نامنظور،قریشی
4 اکتوبر 2010وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کی پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر کے روز برسلز میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن سے ملاقات کی ہے۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں وزیر خارجہ نے سیکریٹری جنرل کے ساتھ نیٹو کی جانب سے حالیہ دنوں میں پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں پر شدید احتجاج کیا۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو سکتی ہے جبکہ اس موقع پر نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔
ادھر پاکستان میں خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو یہ معاملہ اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اٹھانا چاہئے۔ سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی شقیں کسی بھی ملک کی خود مختاری اور سلامتی کی ضمانت دیتی ہیں۔
’’صرف رسمی طریقے سے ان جذبات کا اظہار نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ ملک کی سلامتی اور خودمختاری کا معاملہ ہے اور اس کے لئے باقاعدہ عالمی سطح پر قانون موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی ملک حتیٰ کہ اقوام متحدہ کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔‘‘
اسی دوران اسلام آباد میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب نیٹو ٹینکرز پر کئے گئے حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے سے فون پر بات کرتے ہوئے طالبان کے مبینہ ترجمان اعظم طارق نے کہا کہ طالبان آئندہ بھی ایسے حملے جاری رکھیں گے۔ اس سے پہلے نیٹو ٹینکرز پر حملوں میں جانی نقصان کی تفصیلات بتاتے ہوئے قائم مقام ایس ایس پی اسلام آباد میر واعظ نیازنے بتایا کہ’’آٹھ نو کے قریب لوگ آئے اور انہوں نے نیٹو کے ٹینکرز پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں قریب لوگ زخمی ہوئے ہیں اور ہماری ابتدائی معلومات کے مطابق اس حملے میں تین افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔‘‘
دوسری جانب افغانستان میں موجود نیٹو افواج کو پاکستان کے راستے سامان رسد اور تیل کی فراہمی پیر کو پانچویں روز بھی بند رہی۔ دفاعی امور کے تجزیہ نگار ایئر مارشل (ر) مسعود اختر کا کہنا ہے کہ نیٹو افواج کے لیے پاکستان کے راستے سامان کا حصول اہم ضرور ہے مگر ناگزیر نہیں۔
’’وسطی ایشیائی ریاستوں کے ذریعے بھی ان تک سامان رسد پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ فضائی راستے سے بھی اپنا سامان لے جا سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے ذریعے سامان رسد اور تیل پہنچانا ایک آسان راستہ ہے۔ میرے خیال میں ہمارے وزیر خارجہ کی برسلز میں نیٹو سیکر یٹری جنرل کے ساتھ ملاقات میں اس مسئلے پر غور کیا گیا ہو گا۔ اس کے علاوہ ہمارے افسران افغانستان گئے ہوئے ہیں، وہاں بھی بات چیت ہوگی۔ لہٰذا میرے خیال میں یہ معاملات طے پا جائیں گے اور حالات دوبارہ ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘
ادھر نیٹو ہیلی کاپٹروں کی جانب سے گزشتہ ہفتے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور تین سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے معاملے کی مشترکہ تحقیقات بھی جاری ہیں اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے کرم ایجنسی کے علاقے میں اس جگہ کا دورہ کیا ہے جہاں سرحدی خلاف ورزی کے واقعات پیش آئے تھے۔
رپورٹ:شکور رحیم،اسلام آباد
ادارت :عصمت جبیں