پاکستانی عدالتیں ’میڈیا کی آزادی پر قدغن‘ لگا رہی ہیں، ہیومن رائٹس واچ
27 نومبر 2012اس تنظیم کے مطابق اگر جج یہ نہیں چاہتے کہ اُنہیں ’جبر اور سنسر شپ کے آلہء کار‘ کے طور پر دیکھا جائے تو انہیں اظہارِ رائے کی آزادی پر عائد قدغنیں فوری طور پر ختم کر دینی چاہییں۔
حال ہی میں اسلام آباد اور لاہور کی ہائی کورٹس نے کئی ایک احکامات جاری کیے ہیں، جن میں ججوں کو ہدفِ تنقید بنانے والے ٹیلی وژن شوز کو بند کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
امریکی شہر نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی اس تنظیم نے کہا ہے کہ گزشتہ مہینے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک جج نے میڈیا ریگولیٹرز کو ایسے ٹی وی چینل بند کر دینے کے احکامات جاری کیے تھے، جو جج کے بقول ایسے پروگرام نشر کر رہے ہیں، ’جن میں معزز چیف جسٹس آف پاکستان کی ذات اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اُن کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اُنہیں بدنام کیا جاتا ہے‘۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز کا کہنا ہے، ’کسی بھی جمہوری معاشرے میں حکومت کی کوئی بھی شاخ، جس میں عدلیہ بھی شامل ہے، عوامی رائے سے بالاتر نہیں ہوتی‘۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’پاکستانی ججوں نے حکومت کے احتساب کے لیے آزادی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن عدلیہ کی ساکھ اس وقت ختم ہو جائےگی، جب وہ اپنی جانچ پڑتال اور اپنے احتساب کے خلاف لڑے گی‘‘۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق صحافیوں نے انہیں بتایا ہے کہ بڑے اخبارات اور ٹیلی وژن اسٹیشنوں کو غیر رسمی طور پر مطلع کیا گیا ہے کہ مخصوص ججوں اور عدالتی فیصلوں پر تنقید کی صورت میں انہیں توہین عدالت کے الزام میں طلب کر لیا جائے گا۔
پاکستان کے سابق حکمران پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد بحال ہونے والی عدلیہ کو رواں برس جون سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ پاکستان ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کے بیٹے پر الزام عائد کیا تھا کہ ارسلان افتخار نے بلیک میل کرتے ہوئے ان سے لاکھوں ڈالر وصول کیے ہیں۔
توہین عدالت کے قانون پر سب سے زیادہ تنقید اس وقت کی گئی، جب پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دیا گیا۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ’جوڈیشل بغاوت‘ قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد سے عدلیہ پر اپنی ’حدود سے تجاوز‘ کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
ia/ng(AFP)