1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

پاکستانی طلبہ کی آن لائن کورسز تک رسائی کیوں ضروری ہے؟

6 ستمبر 2024

کووڈ 19 کے بعد آن لائن ایجوکیشن کا نیا دور شروع ہوا ہے، جو اب سہولت نہیں بلکہ ضرورت بن چکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مستقبل میں یہ ہمارے ملک کے لیے آن لائن آمدنی کی پہلی سیڑھی بھی ہے۔

https://p.dw.com/p/4kLxz
کووڈ 19 کے بعد آن لائن ایجوکیشن کا نیا دور شروع ہوا ہے
کووڈ 19 کے بعد آن لائن ایجوکیشن کا نیا دور شروع ہوا ہےتصویر: DW/S. Khan

کووڈ تو گزر گیا لیکن یہ آن لائن دنیا کے ایسے تجربات سے روشناس کرا گیا کہ جن سے لوگ آج بھی نہیں نکل سکے۔ دنیا پر کووڈ 19 کے، جہاں بہت سے اچھے اور برے اثرات مرتب ہوئے، وہیں 'آن لائن‘ نظام کی ترویج اور اس کے بڑھاوے کے حوالے سے 'کووڈ‘ کے نقوش ان مٹ ہیں۔ سن 2019 میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی فاصلوں کی اس وبا میں انٹرنیٹ کا یہ نظام صحیح معنوں میں ہماری زندگی کے معمولات کو رواں دواں رکھ سکا تھا اور یہ بات انٹرنیٹ کی تاریخ اور ارتقا کے باب میں بھی ہمیشہ ذکر کی جاتی رہے گی۔

اس موقع پر، جب سب لوگ اپنے گھروں تک محصور ہو گئے تو اسی انٹرنیٹ کے وسیلے ایک طرف، جہاں دفتری امور 'آن لائن‘ انجام دیے گئے تو دوسری طرف تعلیمی اداروں نے بھی'آن لائن‘ ذریعے کو اختیار کرتے ہوئے طلبہ کا وقت ضائع ہونے سے بچایا۔ پھر دھیرے دھیرے 'کووڈ 19‘ تو رخصت ہو گیا، پہلے فاصلوں کے ساتھ زندگی کے معمولات کی طرف لوٹے اور پھر آہستہ آہستہ فاصلوں کی پابندی بھی ختم ہو گئی۔

کووڈ تو گزر گیا لیکن یہ 'آن لائن‘ دنیا کے ایسے تجربات سے روشناس کرا گیا کہ جس سے لوگ آج بھی نہیں نکل سکے۔ انھیں پتا چلا کہ عام زندگی میں بھی یہ 'آن لائن‘ تعلیم کا راستہ کس قدر باسہولت اور مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک طرف جہاں آپ اس کی مدد سے گھر بیٹھے اپنی کلاسیں لے سکتے ہیں، وہیں بیرون ملک اداروں سے بھی بہت سے کورسز بہ آسانی مکمل کر سکتے ہیں، لہذا طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد آن لائن ذریعہ تعلیم سے استفادہ کرنے لگی لیکن اس آن لائن ذریعہ تعلیم کا دوسرا پہلو طلبہ کے لیے اس بڑے پیمانے پر ضروری ساز و سامان کی فراہمی بھی ہے۔

جی ہاں 'آن لائن تعلیم میں اگر ایک ضرورت اچھے معیار پر انٹرنیٹ سروس کی فراہمی ہے، تو وہیں اس کے لیے ضروری تمام آلات وغیرہ کا معیاری ہونا بھی بہت ضروری ہے، تاکہ طلبہ بہتر طریقے سے اپنی آن لائن تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔ اس کے لیے اچھے اسمارٹ فون، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ سے لے کر کیمرا، ہیڈ فون اور مائیک وغیرہ تک کا اچھا اور معیاری ہونا ضروری ہے۔

 بہ صورتِ دیگر 'آن لائن‘ کلاسوں میں رخنہ پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے اور بہت سے مواقع پر یہ امر تعلیمی کارکردگی پر براہ راست اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی طالب علم آن لائن کلاس روم میں کسی بات کا جواب دینا چاہ رہا ہے اور عین اسی وقت اس کے کیمرے یا مائیک نے ساتھ چھوڑ دیا یا اس کے جواب کو ٹھیک طریقے سے وہاں نہ پہنچایا تو بہت کوفت ہوتی ہے، ایسے ہی اگر ہمارے گیجٹس سے ایسے اسپیکر منسلک ہیں، جو آواز کو ٹھیک طریقے سے ہم تک نہیں پہنچا پا رہے، تب بھی یہ صورت حال پریشان کن ہو جاتی ہے۔

حکومت کو اس حوالے سے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہ معاملہ صرف 'آئی ٹی‘ کی صنعت اور اس کی در آمدات اور بر آمدات سے متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے تعلیمی بجٹ کا ایک اہم حصہ ہونا چاہیے۔ حکام کو اس حقیقت کو ماننا چاہیے کہ 'پوسٹ کووڈ‘ دنیا میں، جہاں فیزیکل تعلیم بحال تو ہو گئی ہے لیکن آن لائن تعلیم کا غیر رسمی سلسلہ بھی اب قبول عام ہونے لگا ہے۔

 ہمارے ملک کے طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد اس وقت ملکی اور غیر ملکی تعلیمی اداروں سے منسلک ہے، جبکہ 'کووڈ‘ کے دنوں میں تو غیر ملکی جامعات نے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی سطح تک بھی ریسرچ اور فیلوشپ کی سہولت بھی 'آن لائن‘ فراہم کر دی تھی۔

 اس وقت بھی دنیا بھر کی بہت سی بڑی یونیورسٹیوں نے اپنے بہت سے کورسز کے لیے 'آن لائن‘ کی سہولت کو بھی باقی رکھا ہوا ہے، جو اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ وبا کے دنوں میں آن لائن ذریعہ تعلیم اپنی اہمیت اور سہولت کو منوا چکا ہے اور 2019ء کی یہ پابندی آج سہولت بن چکی ہے۔

 اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے طلبہ کے لیے آن لائن تعلیم کے لیے ضروری تمام آلات کے معیار اور ان کی کم قیمت پر طلبہ تک رسائی یقینی بنائی جائے، تاکہ طلبہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنی آن لائن تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔ اس مہارت کے بعد وہ اسی تعلیمی تجربے کو آن لائن آمدنی کی صورت میں بھی ڈھال سکتے ہیں، جو کہ براہِ راست ملک کے لیے کثیر زرمبادلہ لانے کا باعث بھی بنے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔