1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سپريم کورٹ نے ڈرون حملوں کے خلاف اپيل خارج کر دی

شکور رحيم4 ستمبر 2013

پاکستانی سپریم کورٹ نے ڈرون حملوں سمیت بیرونی جارحیت کو روکنے اور امریکا کو دشمن ملک قرار دینے سے متعلق درخواست کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے خلاف اپیل کو خارج کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19c2A
تصویر: picture-alliance/dpa

یہ اپيل وکلاء محاز برا ئے تحفظ دستور کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے سن 2009 کے فیصلے کے خلاف دائر کرائی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس آئینی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے سینئر ججوں جسٹس تصدق جیلانی اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل دور کنی بنچ نے بدھ کے روز اس اپيل کی مختصر سماعت کے بعد فیصلہ سنایا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس اپیل میں اٹھائے گئے معاملات کا تعلق خارجہ پالیسی، دفاع اور ملک کی سلامتی سے ہے۔ ملکی آئین کے تحت اس طرح کے امور عدالتی دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔

اس سے قبل بھی پاکستان کی مختلف عدالتوں میں امریکی ڈرون حملے رکوانے کے لئے درخواستیں دائر کی جاتی رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے وکیل طارق اسد بھی اسی نوعیت کی درخواست دائر کر چکے ہیں لیکن بقول ان کے، انہیں بھی عدالت سے اس بارے میں کوئی ریلیف نہیں ملا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ڈرون حملوں کے خلاف اپیل خارج ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے طارق اسد کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین سپریم کورٹ کو پابند کرتا ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا، ’’اس سے زیادہ میں سمھجتا ہوں کہ اور کوئی ایسا اہم کیس نہیں ہو سکتا جس کو اس عدالت کو سننا چاہیے اور اس کے اوپر ریلیف دینا چاہیے۔ کم از کم عدالت وفاقی حکومت کو اتنی ہدایت دے سکتی ہے کہ وہ چاہے ڈرون حملون کے خلاف امریکا کی عدالتوں میں جائے یا احتجاج کرے اور ان کے سد باب کے لیے ہر ذریعہ استعمال کرے۔‘‘

پاکستان میں 2004 ء سے لے کر 2013 ء تک 372 ڈرون حملے کیے گئے
پاکستان میں 2004 ء سے لے کر 2013 ء تک 372 ڈرون حملے کیے گئےتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری جانب سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور سابق وزیر قانون افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ عدالت نے ڈرون حملوں سے متعلق درست فیصلہ دیا ہے ۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے افتخار گیلانی کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ایسے معاملات کو دیکھے۔ انہوں نے کہا، ’’دفاعی معاملات میں عدالت يہ فيصلہ نہيں کر سکتی کہ معاملات کو کس طرح سے چلایا جائے یا کس طرح سے نہ چلایا جائے ۔ یہ کام ایگزیکٹو کا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ ڈرون حملوں کی اجازت دے یا نہ دے۔یہ سپریم کورٹ نے صحیح کیا ہے کیونکہ ہمارے آئین کی بنیاد طاقت کی تکون پر مبنی ہے، جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہے۔ اس میں عدلیہ کو مداخلت نہیں کرنی چا ہیے تھی۔‘‘

’بیورو آف انويسٹیگیٹو جرنل ازم‘ کے مطابق پاکستان میں 2004 ء سے لے کر 2013 ء تک 372 ڈرون حملے کیے گئے ہیں جن میں سے زیادہ حملے موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کے دور صدارت میں کیے گئے۔ ان حملوں میں تین ہزار سے زائد افراد مارے گئے، جن میں چار سو سے زائد سویلین بھی شامل ہیں۔ پاکستانی حکومت کو ڈرون حملوں کے خلاف ملک بھر میں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اسی سبب بين الاقوامی سطح پر حکومت پاکستان ڈرون حملوں کی شدید مذمت کرتی آئی ہے اور ان کو پاک امریکا تعلقات کے ليے منفی اور پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف قرار دیتی ہے۔ تاہم امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے اسے القاعدہ کے اہم راہنماؤں کو ہدف بنانے میں مدد ملی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے گزشتہ ماہ اپنے دورہء پاکستان کے موقع پر کہا تھا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی پابندی ہونی چاہیے اور ڈرون کو صرف معلومات اکٹھی کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔