پاکستانی خواتین اور ’آن لائن دھمکیاں‘
30 ستمبر 2014انٹرنیٹ رائٹس گروپ ’بائٹس فار آل‘ نے کہا ہے کہ فیس بُک اور ٹوئٹر جیسی سوشل میڈیا کی بڑی کمپنیاں خواتین کے خلاف انٹرنیٹ پر دھمکی آمیز رویوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے میں سست روی سے کام لے رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ویسے تو خواتین کو دنیا بھر میں ہی انٹرنیٹ کی دنیا پر دھمکی آمیز رویوں کا سامنا ہے لیکن پاکستان جیسے قدامت پسند مسلمان معاشرے میں انہیں ایک انفرادی خطرے کا بھی سامنا ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے، جہاں مردوں کی جانب سے خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں جبکہ توہین مذہب کے الزامات بھی تلوار کی طرح لٹکتے رہتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر چلائی جانے والی مہمات کے ذریعے پیدا ہونے والے تشدد کے خلاف قانون کا نفاذ انتہائی کمزور ہے۔ ان حالات میں انٹرنیٹ کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں کو اپنے صارفین کے تحفظ کے لیے وسیع تر اقدامات کرنے چاہییں۔
بائٹس فار آل کی گُل بخاری کا کہنا ہے کہ تکنیکی دُنیا کی یہ جدتیں خواتین کے خلاف تشدد کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں:’’آج ہم جتنے جرائم دیکھ رہے ہیں، ان میں سے بیشتر ان تکنیکی طریقوں کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے مطابق رواں برس صوبہ پنجاب میں خواتین کی جانب سے سائبر کرائمز کی ایک سو ستّر شکایات موصول ہوئیں۔
صوبے میں سائبر کرائمز کے انسداد کے لیے قائم کیے گئے ایک دفتر کے ایک اہلکار سید شاہد حسن کے مطابق ان میں سے کسی بھی کیس میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی، جس کی وجہ یہ ہے کہ متاثرہ خواتین اور ذمہ داروں کے درمیان سمجھوتہ ہو جاتا ہے۔
دوسری جانب انٹرنیٹ کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے بہت کم واقعات رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے کیس رپورٹ کر بھی دیے جائیں تو پولیس شاذ و نادر ہی کارروائی کرتی ہے۔
بائٹس فار آل کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے کیسز میں سے ایک، ایک آن لائن مہم کو ظاہر کرتا ہے، جس کا مقصد نفرت کو ہوا دینا تھا۔ اس مہم کے ذریعے لوگوں کو انسانی حقوق کی ایک معروف کارکن کے ساتھ جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ اس کے قتل پر بھی اکسایا گیا تھا۔ بعد ازاں اس خاتون اور اس کے شوہر پر فائرنگ کا ایک واقعہ بھی پیش آیا۔
اس خاتون کو سینکڑوں دھمکیاں دی گئیں جبکہ اس کے خاندان کے افراد کے پتے آن لائن جاری کر دیے گئے۔ بات یہیں نہیں رکی بلکہ انٹرنیٹ پر اس خاتون اور اس کی بیٹی کی تصاویر بھی جاری کی گئیں۔ بعدازاں فیس بُک نے اس مہم کے لیے بنایا گیا صفحہ بند کر دیا۔
بائٹس فار آل کے مطابق پاکستان کی ایک سو اسّی ملین کی آبادی میں سے تقریباﹰ بتیس ملین افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ تر صارفین اپنے موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق بارہ ملین پاکستانی فیس بُک استعمال کرتے ہیں جبکہ ٹوئٹر استعمال کرنے والوں کی تعداد دو ملین ہے۔