1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی بچوں کے ریپ ، قتل کے واقعات: اجتماعی ضمیر کہاں ہے؟

بینش جاوید
23 جنوری 2020

پاکستان میں اوسطاﹰ روزانہ تقریباﹰ سات بچے جنسی ہراسگی کا نشانہ بنتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے بچے بچیوں کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ مگر قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں آج بھی اس موضوع پر کھل کر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3WhQ9
تصویر: picture-alliance/dpa/Keystone USA Falkenberg

''اگر میں اپنے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی اور اسے قتل کرنے والے مجرم کو جلا کر اس کا جسم خاک بھی بنا ڈالوں، تو بھی میری روح کو سکون نہیں ملے گا۔ میں اسے کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی،‘‘ یہ کہنا تھا گزشتہ برس قصور میں ایک آٹھ سالہ بچے کی والدہ کا۔ اس خاتون کے بیٹے کو پہلے ریپ کیا گیا تھا اور پھر اسے قتل بھی کر دیا گیا۔ کسی بچے کی موت اس کے والدین کے لیے یقینی طور پر بہت بڑا المیہ ہوتا ہے لیکن ان والدین کو کیسے سکون آئے جن کے معصوم سے بیٹے بیٹیوں کے ساتھ مجرم پہلے جنسی زیادتیاں کرتے ہیں اور پھر انہیں قتل بھی کر دیتے ہیں۔

2018ء میں پاکستانی شہر قصور کی کم عمر زینب کی تصویر نے سب کے دل دہلا دیے تھے۔ اس بچی کو ریپ اور قتل کرنے والے مجرم کو سزائے موت دے بھی دی گئی لیکن پاکستانی معاشرے میں ایسے جرائم کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ زینب کے قتل کے بعد بھی قصور میں اس نوعیت کے مزید جرائم بھی پیش آ چکے ہیں۔

اب حال ہی میں پاکستان کے شہر مردان میں بھی ایک بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پاکستانی قومی اسمبلی نے 'زینب الرٹ بل‘ کو منظور کیا تھا لیکن ملکی سینیٹ میں اس کی کچھ شقوں پر اعتراض بھی کیا گیا تھا۔ توقع ہے کہ اس بل کو جلد منظور کر لیا جائے گا۔ مگر قانون سازی کے ساتھ ساتھ آگہی بھی ضروری ہے۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'ساحل‘ کی ترجمان سدرہ ہمایوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،'' پاکستان میں بہت ہولناک صورت میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں تیرہ سو سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔‘‘

سدرہ ہمایوں کے مطابق اس تعداد میں وہ بہت سے جرائم شامل ہی نہیں ہیں، جن کی متاثرہ بچوں کے  والدین پولیس کو رپورٹ نہیں کرتے۔ 'ساحل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے زیادہ تر جرائم میں متاثرہ بچے کا کوئی نہ کوئی قریبی رشتہ دار، پڑوسی یا جاننے والا ملوث ہوتا ہے اور یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ایسے کیسز پولیس کو رپورٹ نہیں کیے جاتے۔

ایسے متاثرہ بچوں اور ان کے والدین کی مشاورت کرنے والی تنظیم 'روزن‘ کے مطابق ضروری ہے کہ ایسے معاملات میں والدین، اسکول، مدرسے، اساتذہ اور وہ تمام ادارے اور افراد جو بچوں سے رابطے میں ہوتے ہیں، انہیں بتایا جائے کہ بچوں کے حقوق کیا ہیں اور یہ کہ بچوں کے تحفظ کی ذمہ داری سب کا مشترکہ فرض ہے۔

'روزن‘ کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، تو والدین کو پتا ہونا چاہیے کہ انہیں بچے کو نہلانا نہیں چاہیے ہے، اس کا لباس دھونا نہیں چاہیے، تا کہ پولیس کارروائی کے دوران کپڑے بھی ثبوت کے طور پر استعمال ہو سکیں۔ 'روزن‘ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ 'زینب الرٹ بل‘ کی منظوری کے بعد بہتر نتائج سامنے آسکیں گے، کیوں کہ اس بل کے تحت ایسا کوئی بھی واقعہ جب رپورٹ ہو گا، تو پولیس، پیمرا اور مختلف ایجنسیوں کو فوری طور پر رپورٹ موصول ہو جایا کرے گی اور مشترکہ کارروائی کی جا سکے گی۔

جن بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار بھی رہتے ہیں۔ اگر ان کی مناسب نفسیاتی مشاورت نہ کی جائے، تو ان کی شخصیت پر بہت گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں 'روزن‘ نامی تنظیم کی طرف سے ایسے  متاثرہ بچوں اور ان کے خاندانوں کی جو مشاورت کی جاتی ہے، اس کے لیے ان ٹیلی نمبروں پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:

080022444

03355000401

03355000402

03355000403

بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے کيسز میں اضافہ: اسباب کیا ہیں؟

قصور اسکینڈل، بچوں سے زیادتی کے بارہ ملزمان بری کر دیے گئے