1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی اہل تشیع فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہیں، ماہرین

23 نومبر 2012

ایک ایسے موقع پر جب شیعہ مسلمان اپنی اہم مذہبی تقریبات کی تیاریوں میں مصروف ہیں پاکستان میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر دہشت گردی میں تیزی دیکھی جارہی ہے۔

https://p.dw.com/p/16oQv
تصویر: Getty Images/AFP

اہل تشیع ہر سال ہجری کلینڈر کے پہلے مہینے محرم میں پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین کی ’شہادت‘ کی یاد مناتے ہیں۔ اکثریتی سنی آبادی والے ملک پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کی ہلاکتوں کی تعداد کے اعتبار سے سن 2012 خونریز ترین برسوں میں سے ایک ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس برس فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں تقریبا 300 اہل تشیع قتل کیے گئے۔

Pakistan Rawalpindi Selbstmordanschlag
پاکستانی میں شیعہ مسلمانوں پر حملوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

شیعہ مسلمانوں کی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن علی مجتبی زیدی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف جو ہو رہا ہے، وہ سوچ سے بھی باہر ہے۔ ’’میں کام پر نہیں جا سکتا۔ اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے یا لینے نہیں جا سکتا۔ میں شیعہ اقلیتی علاقوں میں نہیں جا سکتا۔ ہماری سماجی زندگی قریب ختم ہو چکی ہے۔‘

زیدی نے بتایا کہ پاکستان میں کسی شیعہ مسلمان کے لیے عوامی سطح پر مذہب یا سیاست کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا اب ناممکن ہو چکا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملکی سکیورٹی ایجنسیاں سنی عسکریت پسند گروہوں کی پشت پناہی کرتی ہیں اور اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک تازہ بیان کے مطابق، ’قتل کے واقعات بلاشبہ انہی کا کام ہے، جو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور جو قاتلوں کا پکڑتے نہیں اور انہیں سزا نہیں دیتے وہ بھی اسی تباہی میں حصہ ملا رہے ہیں۔ ۔ ۔ طالبان کسی کے دوست نہیں اور جنہوں نے اس عفریت کو پیدا کیا ہے، انہوں نے اصل میں پاکستان کو برداشت کی سڑک سے نیچے اتار دیا ہے۔‘

اہل تشیع کے اجتماعات پر حملوں میں بدھ کے روز کم از کم 25 افراد ہلاک ہوئے۔ اس میں سب سے خونریز حملہ راولپنڈی میں پیش آیا، جہاں محرم الحرام کے سلسلے میں ایک اجتماع میں ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس واقعے میں 23 افراد ہلاک جبکہ 62 زخمی ہوئے۔ پاکستان میں اہل تشیع کے خلاف کارروائیوں کے اعتبار سے رواں برس 17 فروری کے بعد یہ سب سے خونریز دن تھا۔ 17 فروری کو پاکستانی قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں شیعہ مسلمانوں کو ایک حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس واقعے میں 31 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پاکستانی پولیس کے مطابق راولپنڈی میں ہونے والا بم دھماکا ایک خودکش حملہ تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور محرم الحرام کے سلسلے میں منعقدہ اس تقریب کا حصہ بنا اور پھر اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

یہ واقعہ پاکستان میں ڈی ایٹ سربراہی اجلاس کے انعقاد سے صرف ایک روز قبل پیش آیا۔ واضح رہے کہ اس اجلاس میں ایرانی صدر احمدی نژاد اور ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن سمیت دیگر غیر ملکی رہنما بھی شریک ہوئے۔

تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے میڈیا کو بتایا کہ ’شیعہ پیغمبر اسلام کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں‘۔ احسان نے کہا کہ آئندہ دنوں میں طالبان شیعہ اجتماعات پر مزید حملے کریں گے۔ واضح رہے کہ طالبان انتہاپسند سنی نظریات کے حامل عسکریت پسند ہیں اور طالبان کے مطابق اہل تشیع مسلم نہیں ہیں۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو موبائل فونز پر ایس ایم ایس پیغامات میں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

at/sks (DW)