پاکستانی انتخابات اور جمہوریت پر امریکی کانگریس میں سماعت
14 مارچ 2024امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی نے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور وسطی ایشیا سے متعلق اپنی ذیلی کمیٹی کو پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے سماعت کرنے کا کام سونپا ہے اور یہ سماعت 20 مارچ کو ہو گی۔
امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پرامن، تعمیری تعلقات کا خواہاں
امریکی ایوان نمائندگان میں اس سماعت کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب پاکستان میں بھی کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے آٹھ فروری کو ہوئے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔
انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات افسوسناک ہیں، پاکستانی فوج
اس سے قبل امریکی کانگریس کے دو درجن سے بھی زیادہ ارکان نے ان عام انتخابات کی شفافیت سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ جب تک دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں، اس وقت تک شہباز شریف کی نئی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔
امریکہ شہباز حکومت کے ساتھ مضبوط تعلقات جاری رکھنے کا خواہاں
امریکی کانگریس میں کن امور پر سماعت ہو گی؟
اس سماعت کا عنوان ہے، ’’انتخابات کے بعد پاکستان: پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل اور امریکہ پاکستان تعلقات کا جائزہ۔‘‘ یعنی اس سماعت میں عام انتخابات کے بعد امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت پر بھی غور کیا جائے گا۔
پاکستان: امریکی قانون سازوں کا نئی حکومت تسلیم نہ کرنے پر زور
اس سماعت میں حکمراں ڈیموکریٹک جماعت اور ریپبلکن دونوں پارٹیوں کے قانون سازوں کی نمایاں موجودگی کی توقع ہے۔
پاکستان انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تفتیش کرے، امریکہ
جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے معاون امریکی وزیر خارجہ ڈونلڈ لو اس سماعت میں پیش ہونے والے واحد گواہ ہوں گے۔ سائفر تنازعے میں ڈونلڈ لو کی مبینہ شمولیت ان کی موجودگی کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
پاکستان کے انتخابی عمل میں آزادی اور شفافیت کی کمی پر امریکہ کو تشویش
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ ڈونلڈ لو نے مارچ سن 2022 میں واشنگٹن میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید خان سے ملاقات کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی دھمکی دی تھی۔
پاکستان میں جمہوری عمل میں ہماری دلچسپی برقرار رہے گی، امریکہ
پاکستان اور امریکہ دونوں ہی ملکوں کے صحافی امریکی محکمہ خارجہ کی نیوز بریفنگ کے دوران اکثر یہ مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں،، تاہم امریکی حکام ان الزامات کو مسلسل بے بنیاد قرار دیتے رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ڈونلڈ لو کو اس سماعت میں شامل کر کے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اس تنازعے پر ان کے موقف کی وضاحت کے بعد یہ مسئلہ حتمی طور پر حل ہو سکتا ہے۔
ادھر امریکہ میں سرگرم پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے اس سماعت سے متعلق ایک بیان جاری کر کے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکیوں کی ’’مسلسل کوششوں‘‘ کی وجہ سے ہی اس امریکی ایوان میں سماعت کا یہ فیصلہ ہوا ہے۔
کانگریس میں پاکستان سے متعلق قرارداد
بیس مارچ کو سماعت کے دن ہی ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی ایک قرارداد پر بھی غور کر رہی ہے، جس میں پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کا اظہار کیے جانے کی توقع ہے۔
اس قرارداد میں امریکی صدر اور وزیر خارجہ سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ ’’جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی‘‘ کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں۔
اس میں اسلام آباد پر بھی زور دیا جائے گا کہ وہ جمہوری اداروں، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ آزادی صحافت، آزادی اجتماع اور آزادی اظہار کی بنیادی شہری ضمانتوں کا احترام کرے۔
اطلاعات کے مطابق اس قرارداد میں پاکستان کے سیاسی، انتخابی یا عدالتی عمل کو تباہ کرنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کی جائے گی۔
یہ پاکستانی عوام کو ہراساں کرنے، ڈرانے، غیر قانونی حراست، یا ان کے انسانی اور سیاسی حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی سمیت جمہوریت میں شرکت کو دبانے کی کوششوں کی بھی مذمت کرتی ہے۔
امریکی قانون سازوں کی پاکستانی انتخابات پر تشویش
واضح رہے کہ دو ہفتے قبل ہی امریکی کانگریس کے اکتیس اراکین نے صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے نام اس مکتوب پر دستخط کیے تھے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کی نئی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کرے، جب تک انتخابی دھاندلی اور اس عمل میں مداخلت کی تحقیقات مکمل نہیں کر لی جاتیں۔
جن قانون سازوں نے مشترکہ خط پر دستخط کیے تھے، ان میں سے بیشتر کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ انہوں نے پاکستان کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں پولنگ سے قبل اور ووٹنگ کے بعد ہونے والی مبینہ دھاندلی اور غیر شفافیت پر تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔
ان امریکی قانون سازوں نے انتخابات کے دن ہونے والی مبینہ خلاف ورزیوں اور رکاوٹوں کے شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے نئی پاکستانی حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
قانون سازوں نے دلیل دی تھی کہ پاکستان میں جمہوریت کا تحفظ اور اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ انتخابی نتائج حقیقی طور پر اشرافیہ اور فوج کے بجائے عوام کے مفادات کی عکاسی کرتے ہوں۔ اور ’’یہی امریکی مفادات سے بھی ہم آہنگ ہے۔‘‘
اس مکتوب میں ان ارکان نے لکھا تھا، ’’پاکستانی حکام پر زور دیا جائے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو رہا کریں، جو محض سیاسی بیان بازی یا سرگرمی میں ملوث ہونے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہو۔ پاکستان میں محکمہ خارجہ کے اہلکاروں کو ایسے معاملات کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے کہا جائے اور ان سے ایسے افراد کی رہائی کی وکالت کی جائے۔
ص ز/ م م (نیوز ایجنسیاں)