1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان:پانچ برسوں میں 26 صحافی قتل، لواحقین انصاف کے منتظر

2 نومبر 2018

پاکستان میں گزشتہ پانچ برسوں میں چھبیس صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان صحافیوں کے قاتل ابھی تک قانون کی گرفت سے باہر ہیں اور مقتولین کے لواحقین اپنے لیے انصاف کے منتظر ہیں۔

https://p.dw.com/p/37acz
Pakistan Journalisten Mord Pressefreiheit Medien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.Naveed

پاکستان کو دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جہاں میڈیا کارکن اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہیں۔ پاکستان میں دو ہزار تیرہ سے لے کر آج تک دو درجن سے زائد صحافیوں کے قتل اور میڈیا کارکنوں کو ڈرانے دھمکانے کے سینکڑوں واقعات کو کئی ماہرین اس وجہ سے بھی پریشان کن اعداد و شمار قرار دے رہے ہیں کہ جمعہ دو نومبر کو صحافیوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے سزاؤں سے بچ جانے کے خلاف اقوام متحدہ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

Daniel Pearl Wall Street Journalist wurde ermordet
تصویر: AP

صحافیوں پر حملوں اور دیگر وارداتوں سے متعلق معلومات جمع کرنے والے ادارے فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’فریڈم نیٹ ورک کی یہ تازہ رپورٹ گزشتہ پانچ سال میں صحافیوں کے سیفٹی اور سکیورٹی کے جو مسائل ہیں، ان کے حوالے سے ہے۔ سن 2000 سے آج تک ایک سو بیس سے زائد پاکستانی صحافیوں کا قتل ہو چکا ہے جبکہ دو ہزار تیرہ سے دو ہزار اٹھارہ کے درمیان چھبیس صحافیوں کا قتل ہوا۔ پاکستان میں صحافیوں کو پیش آنے والی مشکلات اور ان پر کیے جانے والے حملوں کے بارے میں کافی معلومات میسر ہیں لیکن وہ صحافی جن کو قتل کر دیا جاتا ہے، ان کے لواحقین کو انصاف ملنے کے بارے میں ہمارے پاس بالکل کوئی معلومات نہیں ہیں۔ دو ہزار تیرہ سے دو ہزار اٹھارہ کے درمیان ان چھبیس صحافیوں کے لواحقین کو بھی انصاف نہیں ملا۔‘‘

اقبال خٹک نے مزید بتایا،’’2013 سے 2018 کے درمیان قتل کیے جانے والے چھبیس صحافیوں کے قاتلوں میں سے کسی ایک پر بھی ابھی تک بار بار کی اپیلوں کے باوجود کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ ان میں سے گیارہ کیسز تو ایسے تھے، جن میں پولیس کو اپنی تحقیقات مکمل بھی نہیں کرنے دی گئیں جبکہ صرف پندرہ ایسے کیس تھے جنہیں کورٹ میں پیش کرنے کے قابل سمجھا گیا۔ لیکن ان میں بھی کسی ملزم کو سزا نہیں سنائی جا سکی۔ ان سارے واقعات میں انصاف کی فراہمی کی صورتحال زیرو رہی۔‘‘

Karikatur EU Pakistan Islamabad
تصویر: AP

فریڈم نیٹ ورک کی اس تازہ رپورٹ کے مطابق ان کیسوں میں سب سے بری کارکردگی خیبر پختونخوا پولیس کی ہے، جہاں قتل ہونے والے چھ صحافیوں میں سے صرف ایک صحافی کا کیس عدالت تک پہنچا۔ پنجاب میں ایک تہائی کیسوں میں پولیس نے چالان جاری نہیں کیے جبکہ بلوچستان اور سندھ میں ہر پانچویں کیس میں سے ایک ایسا تھا کہ جس میں پولیس نے چالان جاری نہیں کیا۔

پاکستان میں قانونی اصلاحات کے موضوع پر کام کرنے والی تنظیم ‘‘ارادہ’’ کے سربراہ محمد آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دراصل کیس کی نامکمل تحقیق اور نامکمل ٹرائل کے باعث ملزم بچ جاتا ہے اور انصاف کی فراہمی ممکن نہیں رہتی۔ پاکستان میں ساٹھ فیصد واقعات میں پولیس صحافی کے قتل کی تحقیقات ہی مکمل کرنے میں نہ تو کامیاب ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اختتامی چالان درج کرواتی ہے، جو ٹرائل شروع ہونے سے قبل جمع کروایا جاتا ہے۔ قتل کیے جانے والے چھبیس صحافیوں میں سے صرف سولہ کے کیس کورٹ تک پہنچے۔ اس طرح قتل ہو جانے والے صحافیوں میں سے ایک تہائی کے لواحقین انصاف ملنے سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ ان کا کیس کورٹ تک ہی نہیں پہنچ پاتا۔‘‘

آفتاب عالم نے مزید کہا،’’بنیادی طور پر یہ جو ہمارا فوجداری نظام انصاف ہے، اس کے اندر ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر پراسیکیوشن اور ٹرائل کے اندر ایسی خامیاں اور کمزوریاں ہیں کہ یہ نظام مجرم کو سزا نہیں دے پاتا۔ شہادتیں نہیں ملتیں، گواہ نہیں ملتے۔ اگر ولی خان بابر کا کیس اٹھا لیں تو ایک صحافی قتل ہوا اس کے بعد چھ اور لوگ قتل کر دیے گئے جن میں گواہ بھی شامل تھا اور پراسیکیوٹر بھی۔ تو یہاں پر مجرم اپنا جرم چھپانے کے لیے آٹھ دس جرم اور کر دیتا ہے اور پھر بھی سزا اس کو نہیں ملتی۔ سزا نہ ملنے سے لوگوں کا ڈر ختم ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ایک طرح سے پاکستان میں صحافیوں کو قتل کرنے کی مکمل چھوٹ ہے۔‘

Karikatur EU Pakistan Islamabad
تصویر: AP

انسانی حقوق اور میڈیا سیفٹی کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن فائزہ حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر ملکی نظام انصاف کی فراہمی میں ناکام ہو جائے تو ایسے حالات میں کسی سپیشل انسٹیٹیوٹ کی ضرورت ہوتی ہے، سپیشل قانون اور سپیشل فریم ورکس لانے چاہییں جیسے کہ دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔ چونکہ صحافیوں کی اموات کی شرح میں کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ امپیونٹی جو ہے وہ کم ہونے کے بجائے زیادہ ہوئی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں پر ایک ایسی جنرل سیفٹی اور سکیورٹی کی کونسل بنائی جائے جو ایسے معاملات کی دیکھ بھال کرے، ذمہ داری لے اور ان کی آواز بنے۔ اگر آج ایسی کوئی کونسل ہوتی تو، ان پچیس صحافیوں کے کیسسز کی صورتحال قدرے بہتر ہوتی۔ سپیشل پراسیکیوٹرز لائے جاتے، سپیشل ججوں کی سربراہی میں عدالتوں میں مجرموں کو سزائیں دی جاتیں، تو بڑی میجر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ ورنہ نامکمل تحقیقات، نامکمل ٹرائل اور سزائیں نہ دینا انصاف کی ناکامی کا سبب بنتا رہے گا۔

’پاکستان میں صحافت پر غیر اعلانیہ پابندیاں ہیں‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں