1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حجاب پہننے کے احکامات تنقید کی زد میں

عبدالستار، اسلام آباد
7 مارچ 2023

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وزارت تعلیم کی طرف سے ایک سرکولر کے زریعے لڑکیوں اور استانیوں کو حجاب پہننے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اس سرکولر کو پاکستان اور اس متنازعہ علاقے کے انسانی حقوق کے کارکنان ہدف تنقید بنارہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4OMOC
Lehrprogramm im Religionsunterricht in Ägypten
تصویر: DW/Reham Mokbel

 

ناقدین کے خیال میں یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اصل تعلیمی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ واضح رہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکشن کی طرف سے کچھ دنوں پہلے یہ سر کولر جاری کیا گیا تھا، جس پر ناظم تعلیم اعلٰی نے دو مارچ کو دستخط کیے۔ سوشل میڈیا پر یہ سرکولر کل بروز پیر سے وائرل ہوا ہے، جس پر بہت سے حلقے تنقید کررہے ہیں۔

ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تعلیمی ادارے بہت سے مسائل کا شکار ہیں لیکن حکومت ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے اس طرح کے سرکولر مذہبی حلقوں کو خوش کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ 

متنازعہ علاقے میں تعلیمی اداروں کے مسائل

انٹرنیشنل آن لائن جنرل برائے پرائمری ایجوکیشن کی 2016ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومتی اسکولوں کی تعداد 2202 ہے، جس میں نو ہزار 589 اساتذہ ہیں۔ محمد سبیل فاروق کی تحریر کردہ اس رپورٹ کے مطابق متنازعہ علاقے کے 43 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے یعنی ان کا شمار 'آؤٹ آف اسکول چلڈرن‘ میں ہوتا ہے۔خیبر پختونخوا: احتجاج کے بعد لازمی حجاب کا حکومتی فیصلہ واپس

Pakistan Internationaler Frauentag | Aurat-Marsch
پاکستان میں عورت مارچ پہلے ہی متنازعہ بن چُکا ہےتصویر: DW/T. Shahzad

ایسے طالب علم جو دوران تعلیم، تعلیم کے سلسلے کو منقطع کردیتے ہیں، ان کی شرح 35 فیصد ہیں۔ اسکولوں میں تقریباً بارہ فیصد ایسے اساتذہ ہیں، جو تعلیمی اداروں سے غیرحاضر رہتے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ 41 فیصد اسکولوں کے پاس عمارتیں نہیں ہیں جبکہ  ستاسی فیصد اسکول بجلی سے محروم ہیں۔ 73 فیصد اسکول ایسے ہیں جو پانی کی عدم دستیابی کا شکار ہیں جبکہ 82 فیصد اسکولوں کی باؤنڈری وال نہیں ہے۔

انسانی حقوق کے خلاف

انسانی حقوق کمیشن کے کو چئیرپرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے پابندی لگانا طالبانی رویہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح حجاب کسی پر مسلط کرنا یا حجاب کی شرط اسکولوں میں لگانا انسانی اور جمہوری حقوق کے خلاف  ہے اور یہ صرف مولویوں کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے، جو کل کوئی نیا مطالبہ لے کر آ جائیں گے۔

 

اسد بٹ کے مطابق  اگر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستانی حکومت تعلیم کی واقعی بہتری چاہتے ہیں تو انہیں تعلیمی بجٹ کو بڑھانا چاہیے۔ ''اس کے علاوہ پاکستان میں ہزاروں ایسے اسکول ہیں، جن کی باؤنڈری وال نہیں ہے، جہاں پر بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے۔ بچیوں کے مخصوص ایام کے لیے سہولیات موجود نہیں ہے۔ اساتذہ کی کمی ہے۔ یہاں تک کہ پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔‘‘

اسد بٹ نے مطالبہ کیا کہ اگر مظفرآباد کی حکومت تعلیمی مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے تو وہ تعلیم کو جدید بنائے اور تعلیمی اداروں کو تمام طرح کی سہولیات فراہم کرے۔ ان کے بقول، '' تعلیمی اداروں کو اس طرح کے سرکولر سے مدرسوں میں تبدیل کیا جارہا ہے، جس سے معاشرے میں مزید تنگ نظری پھیلے گی۔‘‘

Pakistan Internationaler Frauentag | Aurat-Marsch
پدر سری معاشرے میں مردوں نے بھی حیا مارچ کا سلسلہ شروع کر دیاتصویر: DW/A. Sattar

برقعہ لازم قرار دينے پر افغان خواتين برہمی اور خوف ميں مبتلا

پاکستان کے تعلیمی اداروں کے مسائل

تعلیمی مسائل کے حوالے سے اسد بٹ کے دعووں میں سچائی نظر آتی ہے۔

تعلیمی مسائل پر کام کرنے والی غیر حکومتی تنظیم ادارہ تعلیم و آگاہی  کی 2021 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے  انیس فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں یعنی ان کا شمار آؤٹ آف اسکول چلڈرن میں ہوتا ہے۔ اس ادارے نے ایک سو باون دیہی اضلاع کے پانچ ہزار چھ سو اٹھانوے اسکولوں کا سروے کیا۔ یہ رپورٹ اس سروے کے حوالے سے ہے۔

بھارت: عدالت نے بھی مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کو درست قرار دے دیا

 اس رپورٹ کے مطابق پچیس فیصد سرکاری اسکولوں میں باؤنڈری وال نہیں ہے جبکہ 30 فیصد اسکولوں میں بیت الخلاء کی یا تو مناسب سہولت نہیں ہے یا یہ سرے سے ہیں ہی نہیں۔

سیکھنے کی صلاحیتوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ سے سولہ سال کے بچے جو سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں ان میں سے پچپن فیصد اردو سندھی اور پشتو کی کہانیاں پڑھ سکتے ہیں۔ چھپن فیصد انگریزی میں جملے پڑھ سکتے ہیں جب کہ صرف اکیاون فیصد دو ہندسوں کی تقسیم ارتھمیٹک میں کر سکتے ہیں۔

Pakistan Internationaler Frauentag | Aurat-Marsch
پاکستان میں خواتین کے حقوق سے متعاق بہت سے مسائل پیدا ہو چُکے ہیںتصویر: DW/A. Sattar

پشاور، خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں حجاب لازمی قرار دے دیا گیا

 صنفی امتیاز

قومی اسمبلی کی رکن کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے احکامات صنفی امتیاز کے مترادف ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ضرورت اس امر کی ہے کہ اصل مسائل پر توجہ دی جائے۔ اس طرح کے احکامات طالب علموں اور خواتین کے لیے مزید مسائل پیدا کریں گے۔ اسلام میں پردہ حیا ہے۔ جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘

 پدرسری سوچ کی عکاس

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی حقوق نسواں کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ ہماری بیوروکریسی اور سیاسی جماعتوں میں ایسی سوچ کے افراد ہیں، جو معاشرے کو تنگ نظری اور پدر سری کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' کسی کو کس طرح کا لباس پہننا ہے، یہ اُس شخص کا انفرادی مسئلہ ہے۔ اس طرح خواتین پر احکامات مسلط کرنا کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ ہم اس کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے اور یوم خواتین پر بھی اس مسئلہ کو اٹھائیں گے۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر تعلیم کو متعدد بار فون کالز کیں لیکن نہ ہی انہوں نے فون اٹھایا اور نہ وائس میسیجیز کا جواب دیا۔