1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستان کے جمہوری سفر کو پورپی کمیشن سراہتا ہے‘

عرفان آفتاب | شیراز راج
17 جولائی 2018

یورپی پارلیمان کے تین پاکستانی نژاد اراکین نے پاکستان کے الیکشن کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ سالوں میں اس ملک میں جمہوری عمل کے فروغ کوحوصلہ افزا قرار دیا۔ دیکھیے مغربی یورپی ملک بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں قائم یورپی پارلیمنٹ سے ڈی ڈبلیو شعبہ اُردو کی سربراہ کشور مصطفیٰ کے ساتھ اراکین یورپی پارلیمان سجاد حیدر کریم، امجد بشیر اور واجد خان کی خصوصی گفتگو۔

https://p.dw.com/p/31ayv

مغربی یورپی ملک بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں قائم یورپی پارلیمنٹ کے اسٹوڈیو میں ڈی ڈبلیو شعبہ اُردو کے ساتھ ایک مباحثے میں اراکین یورپی پارلیمان سجاد حیدر کریم، امجد بشیر اور واجد خان کی متفقہ رائے تھی کہ جمہوری عمل کا تسلسل ہی مضبوط جمہوری اقدار اور مستحکم اداروں کی ضمانت دے سکتا ہے جس کے بغیر ایک خوشحال پاکستان ممکن نہیں۔                                 

یورپی پارلیمنٹ کے پاکستانی نژاد ان اراکین کا تعلق برطانیہ کی مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے۔ نظریات کے اختلاف کے باوجود ان میں کچھ چیزیں مشترک ہیں جن میں سر فہرست پاکستان سے محبت اور ان کا خلوص ہے۔ ڈی ڈبلیو شعبہ اُردو کی سربراہ کشور مصطفیٰ کے ساتھ اس مباحثے میں سجاد حیدر کریم، امجد بشیر اور واجد خان تینوں کا یہی کہنا تھا کہ وہ یورپ میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کی خواہش اور کوشش کے ساتھ ساتھ پاکستان میں جمہوری اقدار کی جڑیں مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ان تینوں کا تعلق کسی مراعت یافتہ طبقے سے نہیں تاہم لگن اور محنت سے انہوں نے یورپ میں اپنا مقام اوراپنی پہچان بنائی اور یہ یورپ اور پاکستان دونوں سے وفاداری نبھا رہے ہیں۔ یورپی یونین کے اعلٰی ترین عہدوں اور اہم ترین کمیٹیوں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں اور فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ 
                                                                            
مندرجہ ذیل سطور میں پاکستان میں جمہوری عمل، ریاستی و حکومتی نظام، خارجہ تعلقات، انتہا پسندی و دہشت گردی، انسانی حقوق اور پاکستانی عوام کے مستقبل کے حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کی سربراہ، کشور مصطفی سے انکی گفتگو کا مختصر احوال بیان کیا جا رہا ہے۔                                                                    
کیا پاکستان میں شفاف انتخابات کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟                                                           
سجاد حیدر کریم کا کہنا تھا کہ مسلسل دو منتخب حکومتوں کا اپنی مدت پوری کرنا اور انتخابی عمل کے بعد پرامن انتقال اقتدار ہو جانا بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے اور اس حقیقت نے عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنایا ہے۔ جمہوریت کبھی بھی اور کہیں بھی خامیوں سے پاک نہیں ہوتی لیکن یہ انسانی تاریخ کا سبق ہے کہ جمہوریت دیگر تمام نظاموں سے بہتر نظام ہے۔ تاہم جمہوریت چند اقدار اور اصولوں کی پاسداری کے بغیر اپنی روح کھو دیتی ہے۔ پاکستان میں اداروں کی مضبوطی، آزادی اظہار اور تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی مواقع کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پاسداری، صنفی برابری اور مذہبی ہم آہنگی کا فروغ جمہوریت کا مقصد ہے۔

واجد خان اور امجد بشیر دونوں آئندہ انتخابات کے لیے یورپی یونین کے انتخابی مبصرین کی ٹیم میں شامل ہیں۔ واجد خان نے نشاندہی کی کہ گزشتہ انتخابات کے بعد یورپی یونین کے مبصرین نے اپنی حتمی رپورٹ میں پچاس سفارشات دی تھیں جن میں سے پاکستان نے 37 سفارشات پر عمل درآمد کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی ریاست جمہوری عمل کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ تینوں ماہرین کی رائے تھی کہ اگر میڈیا آزاد ہو، عدلیہ اور انتخابی کمشن غیر جانبدار ہوں اور تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی مواقع فراہم ہوں تو پاکستان میں آزاد اور شفاف انتخابات کی توقع رکھنا غلط نہ ہو گا۔  

                                                                                                            
ایک خوشحال پاکستان کے قیام کے لیے سب سے پہلی ترجیح کیا ہونی چاہیے؟                                         
ایک سیلف میڈ بزنس مین کے طور پر برطانوی معاشرے میں اپنی پہچان بنانے والے امجد بشیر کا کہنا تھا کہ شہریوں کی تعلیم اور استعداد میں اضافہ پاکستانی حکومت، ریاست اور معاشرہ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ انفراسٹرکچر اہم ہے لیکن سب سے اہم انسان ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ شہری سیاسی عمل میں حصہ لے سکیں۔ اگر وہ فیصلہ سازی میں شریک ہوں گے تو معاشرہ اور ملک ایک ساتھ ترقی کریں گے۔ سنگاپور، جنوبی کوریا اور ملیشیا کی ترقی کا راز یہی ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے عوام کی تعلیم اور استعداد پر توجہ دی۔ پاکستان میں آدھی سے زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے اچھی قانون سازی ہوئی ہے لیکن ابھی بھی دس ملین خواتین رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ یہ ایک بڑا نقصان ہے۔ اس بات کی یقین دہانی کی جانی چاہیے کہ ہر شہری جمہوری عمل میں شریک ہو۔ اسی طرح خواتین کے لیے مخصوص نشستیں ایک اچھی بات ہے لیکن اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

                                                                              
پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں کتنی مضبوط ہیں؟                                                                    
واجد خان جن کے والد ایک ٹیکسی ڈرائیور اور انکی والدہ ایک خاتون خانہ تھیں۔ انہوں نے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی خدمت کو اپنا شعار بنایا خصوصاً جنوبی ایشیائی خواتین کی تعلیم، اور انہیں معاشرے میں با اختیار بنانے کے لیے بہت کام کیا۔ ان خدمات کے لیے انہیں کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ انکے ملک میں قائم جمہوری نظام نے انہیں مساوی مواقع فراہم کیے اور آج وہ اعلٰی ترین سیاسی منصب پر ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان کی جمہوریت کا موازنہ مغرب کی جمہوریت سے نہیں کرنا چاہیے جہاں جمہوری اقدار اور نظام کی مضبوطی کے لیے تین صد یاں درکار ہوئیں۔ جمہوریت ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ پاکستان میں اداروں اور اقدار کو مضبوط ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ وقت پر انتخابات ہوتے رہیں اور پر امن جمہوری انتقال اقتدار ہوتا رہے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ ایک طویل جدوجہد ہے اور اس کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ 


ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان کو کیا کرنا ہو گا؟                                      
سجاد کریم نے پاکستان کو یورپی یونین کے تجارتی معاہدہ جی ایس پی پلس میں شامل کروانے  میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ یہ انکی اور پاکستان کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ اس خدمت اور مسئلہ کشمیر کے لیے انکی مسلسل لابینگ کی وجہ سے ریاست پاکستان نے انہیں تمغہ قائداعظم سے نوازا۔ عالمی امور پر گہری نظر اور تجربہ کے حامل سجاد کریم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو عالمی برادری کے مطالبات ہر صورت پورا کرنے چاہیں۔ اس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ عالمی تنہائی سے بچنا حکومت اور ریاست کا فرض ہوتا ہے۔ پاکستان کے عوام، حکومتوں اور ریاست نے دہشت گردی کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ اُس نظام میں موجود وہ تمام خامیاں دور کرنی چاہیں جن سے دہشت گرد فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ یہ محض عالمی برادری کا مطالبہ نہیں، بلکہ اسی میں ہمارا فائدہ بھی ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پاک معاشرے میں ہی حقیقی جمہوری اقدار پنپ سکتی ہیں۔ اس کام کی اصل ذمہ داری جمہوری حکومت پر عائد ہوتی ہے مگر ریاستی اداروں کے مکمل تعاون کے بغیر کوئی حکومت یہ کام تن تنہا نہیں کر سکتی۔ 
اس موقع پر واجد خان کا کہنا تھا کہ ہر ملک میں جمہوری حکومت کے علاوہ ریاستی اداروں کا کردار ہوتا ہے اور ہونا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کردار کیا اور کتنا ہو اور اس میں بہتری کیسے لائی جائے۔ اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرے میں جمہوری ادارے اور اقدار کتنی مضبوط ہیں۔ پاکستان میں ہم سب کو مل کر جمہوری عمل کو مضبوط کرنا چاہیے۔

 

پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟                                                         
امجد بشیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو معاشی اصلاحات کرنی چاہیں تاکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آئے۔ مضبوط اور خود مختار عدلیہ ہونی چاہیے جو بیرونی سرمایہ کاروں کو ضمانتیں فراہم کرے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن موجودہ نظام انکی مدد نہیں کرتا۔ ایک جمہوری پاکستان کرپشن، انتہا پسندی اور دہشت گردی سے بہتر طور پر نمٹ سکتا ہے۔                                     
واجد خان کی رائے میں عالمی سطح پر بھی ٹیکس چوری ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن یہاں جمہوری اقدار مضبوط ہونے کی وجہ سے قانون کی بالا دستی قائم ہے اور احتساب دراصل نظام کے اندر موجود ہے۔ 
سجاد کریم کا کہنا تھا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور اس عمل کو بالکل غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ کسی ایک جماعت یا شخصیت کو خصوصی نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ اداروں کی مضبوطی کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔ نیب اپنا کردار ادا کر سکتی ہے لیکن وہ ہر مسئلہ کا حل نہیں۔ سیاست دانوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک مختلف پاکستان ہے اور اب لوگ انہیں مختلف پیمانوں سے دیکھیں گے۔ اگر یورپ میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کا بچہ، ایک نسل کے دوران، یورپی رکن پارلیمنٹ بن سکتا ہے تو پاکستان کی منزل بھی یہی ہونی چاہیے کہ وہاں ایک ایسا معاشرہ بنایا جائے جہاں سب کو برابر کے مواقع حاصل ہوں۔

 
کیا پاکستان کی آئندہ حکومت مستحکم ہو گی؟                                                                            
امجد بشیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام خصوصاً نوجوانوں میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے لیکن یہاں سیاسی استحکام اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب ادارے مضبوط ہوں گے اور سب کو برابر کے مواقع حاصل ہوں گے۔ سجاد کریم نے کہا کہ وہ بہت پر اُمید ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ کراچی کے لوگ ایک حقیقی تبدیلی دیکھیں گے۔ انکے خیال میں اصلاحات کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے اور منتخب ہونے والے سیاست دانوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ انکے پاس بہت وقت ہے۔ 
واجد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آمریتوں نے بہت قیمتی وقت ضائع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ ضابطہ اخلاق سب کے لیے ہونا چاہیے، احتساب سب کا ہونا چاہیے اور سب کو برابر کے مواقع میسر ہونے چاہیں۔