1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی کتابی صنعت اتنی پیچھے کیوں؟

27 جنوری 2020

پاکستان میں کتابی صنعت بظاہر ترقی کر رہی ہے مگر وہ ابھی تک اپنی ممکنہ نمو کی انتہائی حدود سے بہت پیچھے ہے۔ اس عمل میں خواندگی کی کم شرح اور اشاعتی حقوق کی چوری کا وسیع تر عمل سب سے بڑی بڑی رکاوٹیں ثابت ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3WrRM
Pakistan Buchladen in Islamabad
تصویر: DW/I. Jabeen

گلوبل پبلشنگ انڈکس کے گزشتہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کتابوں کی صنعت کا سب سے بڑا المیہ کاپی رائٹس کی چوری ہے جسے پائریسی بھی کہا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر یہ گلوبل پبلشنگ انڈکس (جی پی آئی) برطانیہ میں اشاعتی اداروں کی تنظیم یا پبلشرز ایسوسی ایشن اور برٹش کونسل نے مل کر متعارف کرایا تھا۔ ایسے گزشتہ جی پی آئی کے مطابق پاکستان میں بک انڈسٹری کا 50 فیصد سے لے کر 60 فیصد تک حصہ ہر سال کاپی رائٹس کی چوری کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہی بات برطانوی پبلشرز ایسوسی ایشن کی پاکستان کے بارے میں ملکی رپورٹ سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر کتابوں کی اشاعت سے متعلق ایک بڑے آن لائن ادارے 'پبلشنگ پرسپیکٹیوز‘ کی پاکستان سے متعلق شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان میں کتابی صنعت کو ایک دو نہیں بلکہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کے کئی مسائل کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کتابوں کی اشاعت کی پاکستانی صنعت کے لیے سب سے بڑے مسائل میں سے اہم ترین کاپی رائٹس کا سرقہ ہے۔ اس کے بعد دیگر بڑے منفی عوامل میں سے کتابوں کی تقسیم یا ڈسٹری بیوشن کا ناقص طریقہ کار، کتابوں کی دکانوں کا بہت کم ہونا اور ملک میں خواندگی کی کم تر شرح نمایاں ہیں۔

عالمی کنوینشز پر عمل درآمد کی شرح بہت کم

پاکستان میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور آبادی کے لحاظ سے ملک کے دو سب سے بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں گزشتہ کئی برسوں سے سالانہ کتاب میلے بھی منعقد ہوتے ہیں، جو بہت کامیاب رہتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کتاب بینی کے رجحان میں اضافے کے لیے اور بُک انڈسٹری کی ترقی میں ان تینوں شہروں میں منعقد ہونے والے کتابی اور ادبی میلوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف 'پبلشنگ پرسپیکٹیوز‘ کی پاکستان سے متعلق رپورٹ کے مطابق اسلام آباد حکومت کتابوں، پبلشنگ اور کاپی رائٹس جیسے معاملات کا احاطہ کرنے والے متعدد بین الاقوامی معاہدوں اور کنویشنز پر دستخط بھی کر چکی ہے۔ ان میں یونیورسل کاپی رائٹس کنویشن بھی شامل ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ان معاہدوں اور عالمی کنوینشنز پر عمل درآمد اور ان کے احترام کو یقینی بنانے کے شرح بہت کم ہے۔

پاکستان کی بُک انڈسٹری سے متعلق بین الاقوامی اعداد و شمار کے لحاظ سے ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں کسی بھی کتاب کے ایک ایڈیشن کا اوسط حجم ایک ہزار سے لے کر دو ہزار کاپیوں تک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کتابوں کی مقابلتاً کم فروخت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں شائع ہونے والی اکثر کتابیں درسی کتب، شاعری، کھانا پکانے، سیاست، بچوں یا پھر مذہب سے متعلق ہوتی ہیں۔ بہت سے پاکستانی صارفین تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے ملک میں چھپنے والی کتابوں کے لیے زیادہ تر کاغذ دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا سے درآمد کیا جاتا ہے۔

جہاں تک خواندگی کے شرح کا تعلق ہے تو عالمی سطح پر ایسے ممالک میں کتابی صنعت کاروباری حوالے سے کہیں زیادہ کامیاب رہتی ہے جہاں قومی شرح خواندگی بہت زیادہ ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 میں پاکستان میں خواندگی کی شرح 60 فیصد سے کم (59.1 فیصد) تھی۔ یہ شرح ظاہر کرتی ہے کہ جس ملک میں ناخواندہ افرد کا تناسب 40 فیصد سے بھی زیادہ ہو، وہاں کتابی صنعت مقابلتاً کچھ ترقی کر کے بھی کتنی ترقی یافتہ ہو سکتی ہے؟

پاکستان کی کتابی صنعت میں ڈیجیٹل یا ای بکس کی مارکیٹ کا حصہ کتنا ہے، اس بارے میں ملکی یا بین الاقوامی سطح پر کوئی ٹھوس یا قابل اعتماد ڈیٹا دستیاب ہی نہیں ہے۔

کتابی صنعت سے متعلق 'مفروضے‘

پاکستان میں کتابوں کی اشاعت اور کتب بینی کی ترویج کے لیے قائم ایک سرکاری ادارہ نیشنل بک فاؤنڈیشن بھی ہے۔ اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کہا، ''یہ صرف مفروضے ہیں کہ کتابی صنعت ڈوب رہی یا تباہ ہو رہی ہے۔ یہ بھی ایک مفروضہ ہی ہے کہ لوگوں نے ڈیجیٹل اور ای بک کے باعث روایتی کتابیں خریدنا اور پڑھنا چھوڑ دی ہیں۔ ایسی کوئی بات دراصل ہے ہی نہیں۔ بلکہ یہ صنعت ترقی کر رہی ہے، کیونکہ لوگ کتابیں لکھ رہے ہیں اور نہ صرف یہ کتابیں چھپ رہی ہیں بلکہ دھڑا دھڑ بک بھی رہی ہیں۔‘‘

Pakistan Buchladen in Islamabad
تصویر: DW/I. Jabeen

ڈی ڈبلیو نے ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے پوچھا کہ اگر کتابی صنعت اتنی ترقی کر رہی ہے، تو سعید بُک بینک جیسی کتابوں کی کئی مشہور اور پرانی دکانیں بند ہوتی جانے کی وجہ آخر کیا ہے؟ اس پر انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا، ''پہلی بات تو یہ کہ اسلام آباد میں سعید بُک بینک بند ہی نہیں ہوا۔ پشاور میں سعید بُکس کی جو دکان بند ہوئی، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ کوئی کتابیں خریدنے نہیں آتا تھا۔ وہ بک اسٹور اس لیے بند ہوا کہ وہاں کچھ افراد تاوان لینے پہنچ گئے تھے۔ اب لوگ کاروبار کریں یا تاوان ادا کریں؟ جب کوئی بک شاپ بند ہوتی ہے، تو اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاﹰ بعض اوقات جگہ اچھی یا کاروباری لحاظ سے بہت مناسب نہیں ہوتی، کبھی سیلز مین ٹھیک نہیں ہوتے یا کاروبار پر توجہ نہیں دیتے۔ جب وجوہات ایسی یا ان سے ملتی جلتی ہوں، تو کوئی بھی کاروبار ڈوب سکتا ہے۔ کوئی بھی دکان بند ہو سکتی ہے۔‘‘

پاکستان میں بک پبلشرز اور بک سیلرز کتنے؟

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں بک پبلشرز اور بک سیلرز کی تعداد کتنی ہے اور اس تعداد میں ماضی کی نسبت کتنی کمی بیشی ہوئی ہے، انعام الحق جاوید کا کہنا تھا، ''بک پبلشرز اور بک سیلرز کی تعداد تقریباﹰ دس ہزار ہے۔ سالانہ کتنی کتابیں شائع ہوتی ہیں، یہ بات اس لیے غیر واضح ہے کہ اکثر پبلشرز اپنی کتابوں کی تعداد بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سالانہ 140 تک کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ اسی طرح جہلم بُک فاؤنڈیشن کی بھی روزانہ ایک کتاب چھپتی ہے، یعنی سال میں 365۔ کئی دیگر بڑے اشاعتی اداروں کی کتابوں کی تعداد بھی ایسی ہی ہے۔‘‘

کتابی صنعت کے عروج کی وضاحت کرتے ہوئے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سابق سربراہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''1960میں پنجابی میں دس بارہ سے زیادہ کتابیں نہیں چھپتی تھیں۔ 1970 میں یہ تعداد پچاس ساٹھ ہو گئی، جو آج سینکڑوں میں بنتی ہے۔ اردو کتب کی اشاعت کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح تاریخ، فلسفے، ادب، سوانح عمری، تراجم اور دیگر کتابوں کی اشاعت بھی جاری ہے۔ پھر جس رفتار سے تراجم ہو رہے ہیں، وہ کتابیں بھی تو پڑھی جاتی ہیں۔ ایسا نہ ہوتا، تو نہ تراجم ہو رہے ہوتے، نہ کوئی پبلشر نظر آتا اور نہ بک سیلر۔ ایک مثال یہ بھی کہ پندرہ بیس سال پہلے 'تخلیقات‘ نے اپنا ایک بُک اسٹور شروع کیا۔ وہ بہت چلا، تو فیصلہ کیا گیا کہ کیوں نہ اسی شعبے میں اپنا کاروبار شروع کیا جائے؟ اب ان کے کئی بُک اسٹورز ہیں، کروڑوں کے بزنس ہیں۔ تو کتابیں چھپ اور بک رہی ہیں، تو ہی یہ صنعت ترقی کر رہی ہے۔ ورنہ خسارے کے کاروبار کا انتخاب کون کرتا؟‘‘

کتاب میلوں کو کردار

پاکستان میں ماضی میں کتاب میلوں کی روایت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اب لیکن بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں میں بھی بُک فیئرز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں اکادمی ادبیات پاکستان کا نقطہ نظر جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے بات کی اکادمی ادبیات کے چیئرمین اور سندھی زبان کے معروف مصنف قاسم بوگیو سے۔ انہوں نے بتایا، ''کتاب میلوں کا انعقاد معاشرے کے بدلتے رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن یہ میلے قارئین کو یہ موقع بھی فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنی پسند کی کتابیں ایک ہی جگہ سے اور کم قیمت پر خرید سکیں۔ چھوٹے شہروں میں منعقدہ  کتاب میلوں میں تو سب سے زیادہ کتابیں نوجوان طلبا و طالبات خریدتے ہیں۔ اس کی وجہ وہاں کتابوں کے موضوعات میں وسیع تر تنوع اور کم قیمتیں ہوتی ہیں۔‘‘

Pakistan Buchladen in Islamabad
تصویر: DW/I. Jabeen

پاکستان میں بُک پبلشنگ، بُک سیلنگ اور بُک ریڈنگ کے مستقبل پر اظہار رائے کرتے ہوئے قاسم بوگیو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہر روز دس سے پندرہ نئی کتابیں چھپ رہی ہیں۔ تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ ایک پھلتا پھولتا کاروبار ہے اور بہت سے مشہور مصنفین کو ان کی کتابوں کی رائلٹی بھی باقاعدگی سے ملتی رہتی ہے۔‘‘

مصنف بھی اور قاری بھی

دو کتابوں کے مصنف اور باقاعدگی سے کتاب بینی کرنے والے معروف تجزیہ نگار ناظر محمود سے جب ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کتنا منافع بخش کاروبار ہے، تو انہوں نے کہا، ''یہ منافع بخش کام ہے۔ کتابوں کی فروخت بھی کافی زیادہ ہے۔ لیکن یہ منافع صرف پبلشر کے لیے ہے، مصنفین کے لیے نہیں۔ خاص طور پر نئے مصنفین کو کافی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ آپ کوئی کتاب لکھیں، اسے خود چھپوائیں اور پھر دوستوں میں بانٹیں، تو ٹھیک ہے۔ ورنہ پاکستان میں بہت ہی کم پبلشرز ایسے ہیں، جو نئے رائٹرز کی کتابیں بھی چھاپیں اور انہیں رائلٹی بھی دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پبلشر کتاب چھاپنے کے لیے یہ کہہ کر مصنف سے رقم طلب کرتے ہیں کہ 'کتابیں تو بک نہیں رہیں‘۔ ایک اور بڑا مسئلہ کتاب کی ڈسٹریبیوشن کا بھی ہے۔ بہت کم اشاعتی ادارے ایسے ہیں، جن  کا پورے ملک میں ڈسٹریبیوشن کا اچھا نیٹ ورک ہے۔ ورنہ کتاب صرف چند ایک شہروں تک ہی پہنچتی ہے۔ کتاب میلے اس لیے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں کہ وہاں قارئین کو سو پچاس پبلشرز کی کتابیں ایک ہی جگہ مل جاتی ہیں۔‘‘

ناظر محمود نے اپنے گفتگو میں واضح طور پر یہ اعتراف بھی کیا کہ پاکستان مطالعے کا رجحان کم ہے۔ ''یہ سچ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ پہلے بھی کم ہی کتابیں پڑھتے تھے اور اب بھی کم ہی پڑھتے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف کتاب بینی ہی اہم نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی معاشرے میں یہ بات بھی اہم ہوتی ہے کہ کوئی عام قاری پڑھ کیا رہا ہے؟

ایک کتب فروش کا موقف

راولپنڈی کے رہائشی اور ایک مقامی بُک سٹور کے مالک صادق علی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اس دعوے کو پوری طرح مسترد کر دیا کہ پاکستان میں کتابی صنعت ترقی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ڈیجیٹل دور میں انٹرنیٹ اور ای بکس کے باعث روایتی بُک ریڈنگ متاثر ہوئی ہے یا نہیں، اس کو چھوڑ دیں۔ عام لوگ تو مہنگائی اور غربت کے باعث بھی کتابیں بہت کم خریدتے ہیں۔ عام آدمی تو اپنے اہل خانہ کے تین وقت کے کھانے کے لیے پریشان رہتا ہے۔ میں نے دس سال پہلے اپنی کتابوں کی دکان شروع کی تھی۔ دو سال پہلے تک میرا بُک اسٹور خوب چلتا تھا۔ اب لیکن عام شہری کتابیں کم خریدتے ہیں۔ میری اپنی دکان کی آمدنی آدھی بھی نہیں رہی۔ حالت یہ ہو گئی تھی کہ مجھے اپنے بُک سٹور کے آدھے حصے میں پرچون کا سامان رکھنا پڑا تاکہ میرے گھر کا چولہا چلتا رہے۔‘‘


ایک عام کتاب دوست شہری کے تاثرات

اسلام آباد کے رہائشی اور ایک کتاب دوست قاری امتیاز احمد شیخ کے بقول پاکستان میں کتابیں پڑھنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''میری رائے میں پاکستان میں آج کل مذہبی کتابیں زیادہ شائع بھی ہو رہی ہیں اور پڑھی بھی جا رہی ہیں۔ مجموعی طور پر جب تک ہمارے ملک میں کاپی رائٹس قوانین پر سختی سے عمل  نہیں کیا جائے گا، تب تک بُک انڈسٹری بھی اتنی ترقی نہیں کرے گی، جتنا کہ ممکن ہے۔‘‘ امتیاز شیخ نے اس بات پر بھی مایوسی کا اظہار کیا کہ پاکستان میں عوامی سطح پر مطالعے کی عادت بہت ہی کم ہے۔ انہوں نے کہا، ''2019 کے گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں اوسطاﹰ ہر چار میں سے تین شہری مطالعہ تو کیا کسی کتاب کے پاس بھی نہیں جاتے۔‘‘