ویڈیو کانفرنسنگ کے دوران پاکستان نے کشمیر کا زکر کیوں کیا؟
16 مارچ 2020
کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے سارک ممالک کی مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کی خاطربھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ویڈیو کانفرنسنگ کے دوران پاکستان کی طرف سے کشمیر کے زکر پر بھارت نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اسے ”غیر ضروری" قرا ردیا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کا یہ قدم انسانیت کو درپیش اس بحران سے نمٹنے کے لیے اُس کے رویے کی غیر سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔حکومتی ذرائع نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ویڈیو کانفرنسنگ کا مقصد دنیا کو درپیش اس وبا کا متحد ہوکر مقابلہ کرنے کے لیے لائحہ عمل طے کرنا تھا لیکن پاکستان نے ہر بار کی طرح اس موقع کا بھی استعمال صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کیا۔ سارک کورونا میٹنگ میں کشمیر کا معاملہ اٹھانا بالکل غیر ضروری تھا، یہ موقع کے لحاظ سے مناسب بھی نہیں تھا۔ لیکن پاکستان نے ایک انسانی مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔
ذرائع نے کہا کہ بھارت پاکستان کواس ویڈیو کانفرنسنگ سے الگ رکھ سکتا تھا لیکن چونکہ یہ انسانی مسئلہ ہے اس لیے پڑوسی ملک کو بھی شامل کیا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی دعوت پر تمام ممالک کے سربراہ اس ویڈیو کانفرنسنگ میں شامل ہوئے۔ حتٰی کہ نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی بھی، جنہیں اسپتال سے چند دنوں قبل ہی رخصت ملی تھی، اس میٹنگ میں شریک ہوئے لیکن پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک جونیئر وزیر کو بھیج دیا جو اتنے سنگین معاملے میں پاکستان کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
اس ویڈیو کانفرنسنگ میں پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کا زکر کیا اور کہا کہ کوئی بھی ملک اس صورت حال سے منہ نہیں موڑ سکتا اور صحت میں سب کے ساتھ مساوی سلوک عوامی صحت کا ایک بنیادی اصول ہے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا ''یہ تشویش کا موضوع ہے کہ جموں و کشمیر میں کووڈ۔انیس کے معاملات درج کیے گئے ہیں اور ہیلتھ ایمرجنسی کی صورت حال میں یہ امر ناگزیر ہے کہ وہاں عائد تمام پابندیاں فوراً اٹھالی جائیں۔ مواصلات اور آمدورفت پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے سے اطلاعات کی ترسیل اور ادویات کی سپلائی اور راحتی اقدامات کرنے میں مدد ملے گی۔" ڈاکٹر ظفر مرزا کے اس بیان پر حکومتی ذرائع کے علاوہ اپوزیشن کانگریس پارٹی نے بھی سخت اعتراض کیا۔ کانگریس کے سینئررہنما ابھیشیک منو سنگھوی نے سارک کورونا کانفرنس میں کشمیر کا مسئلہ اٹھانے پر کہا ”اس ملک(پاکستان) کو عالمی برادری کی طرف سے قرنطینہ میں ڈال دینے کی ضرورت ہے۔"
سنگھوی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ”پاکستان اس سے بھی زیادہ نیچے گر سکتا ہے۔ اتنے بڑے انسانی بحران کے باوجود اس نے سارک سربراہان مملکت کی اس میٹنگ میں شرکت کے لیے اپنے ایک جونیئروزیر کو بھیج دیا۔ اس کے بعد اس نے کشمیر کا مسئلہ اٹھادیا، جس کا اس میٹنگ میں کوئی موقع نہیں تھا۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے۔"
کانگریس پارٹی کے ترجمان جے ویر شیر گل نے بھی پاکستان کے رویے کو افسوس ناک اور شرمناک قراردیا۔ دوسری طرف انہوں نے کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی خاطر سارک ممالک کے سربراہوں کی ویڈیو کانفرنسنگ کے وزیراعظم مودی کے اقدام کی تعریف کی۔
اس ویڈیو کانفرنسنگ میں سری لنکا کے صدرگوٹابایا راجا پکاسا، مالدیپ کے صدر ابراہیم محمد صالح، نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی، بھوٹان کے وزیر اعظم لوتے زیرینگ، بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور افغانستان کے صدر اشرف غنی بھی شامل تھے۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ سارک ملکوں کے سربراہوں کے درمیان باضابطہ میٹنگ کا سلسلہ ایک عرصے سے بند ہے۔ سارک رہنماؤں کی آخری چوٹی کانفرنس نومبر 2016 ء میں اسلام آباد میں ہونی تھی لیکن اس سے پہلے ہی کشمیر میں اڑی میں بھارتی آرمی کیمپ پر حملہ ہوگیا جس کے بعد بھارت نے سارک چوٹی کانفرنس میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ بھارت اس حملے کے لیے پاکستان سے سرگرم دہشت گر د گروپوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
جب بھارتی ذرائع سے یہ پوچھا گیا کہ کورونا پر سارک ویڈیو کانفرنسنگ کے بعد کیا سارک چوٹی کانفرنس کی توقع کی جاسکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے دوران جنوبی ایشیا میں کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنی طرف سے دس ملین ڈالر کے ابتدائی تعاون کے ساتھ ایک ہنگامی فنڈ قائم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ دنیا کی بیس فیصد آبادی پر مشتمل سارک ممالک میں کورونا وائرس کے کیسیز بہت کم ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں متحد ہوکر اس چیلنج سے لڑنا او رجیتنا ہوگا۔
جاوید اختر، نئی دہلی