1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کو عسکری سامان فروخت نہ کیا جائے، کابل کا دباؤ

عاطف بلوچ1 اپریل 2014

کابل نے افغانستان میں اتحادی افواج کے زیر استعمال فوجی سازوسامان کی پاکستان کو فروخت کی مخالفت کر دی ہے۔ امریکا افغانستان میں استعمال ہونے والا اربوں ڈالر کا فوجی سازوسامان واپس لے جانے کے بجائے فروخت کرنا چاہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BZNG
تصویر: picture alliance / dpa

تیرہ برس کی طویل افغان جنگ کے اختتام پر امریکی حکومت کی کوشش ہے کہ اس دوران وہاں اتحادی افواج کے زیر استعمال فوجی سازوسامان کو واپس امریکا لے جانے کے بجائے کسی ملک کو فروخت کر دیا جائے۔ اس ملٹری ہارڈ ویئر میں جہاں کئی اہم آلات ہیں، وہیں ان میں ایسی کمپویٹرائزڈ بکتر بند گاڑیاں بھی ہیں، جو باردودی سرنگوں کے دھماکوں کی شدت بھی سہہ سکتی ہیں۔

افغانستان میں جہاں نیٹو کے فوجی مشن کے اختتام کی تیاریاں جاری ہیں، وہیں یہ معاملہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ اس جنگ کے بعد ایسے اضافی عسکری سامان کا کیا کیا جائے، جو واپس امریکا لے جانا انتہائی مہنگا ثابت ہو گا۔ نیوز ایجنسی اے پی نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس عسکری سامان کی فروخت جنوبی ایشیا کے ممالک کے مابین ایک نئی کشیدگی بھی پیدا کر سکتی ہے۔ کابل حکومت نے پاکستان کو کسی بھی قسم کا فوجی سازوسامان فروخت کرنے پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے جبکہ بھارت میں بھی اس حوالے سے تشویش پیدا ہو سکتی ہے۔

Afghanistan Sowjetunion Sowjetische Soldaten mit Panzer in Kabul
کابل کا کہنا ہے کہ اضافی عسکری سازوسامان اٰفغان حکومت کے حوالے کیا جائےتصویر: AP

اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان امریکی عسکری سامان خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے تاہم پینٹاگون اس بارے میں غور کر رہا ہے۔ قبل ازیں امریکی فوج نے واضح کیا تھا کہ افغانستان میں موجود امریکی فوجی سامان میں سے اسلام آباد حکومت کو کوئی چیز نہیں دی جائے گی۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان مارک رائٹ نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوشش ہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج کے زیر استعمال سامان نیٹو فوجی مشن کے بعد کسی قریبی ملک کو فروخت کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سامان میں 800 MRAP نامی بکتر بند گاڑیاں بھی شامل ہیں، جن کو واپس لے جانا انتہائی مہنگا پڑے گا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی فوج کو ان گاڑیوں کی ضرورت ہے کیونکہ بارودی سرنگیں پاکستانی شدت پسندوں کا بھی ایک اہم ہتھیار تصور کی جاتی ہیں۔

ادھر کابل میں صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے کہا ہے، ’’ہم ایسی کسی بھی ڈیل کی سخت مخالفت کرتے ہیں، جس میں کابل حکومت سے مشورہ نہیں کیا جائے گا اور ہم نے یہ بات واشنگٹن حکومت کو بتا دی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو یہ امریکا اور افغانستان کے اسٹریٹیجک تعاون کی بنیادی اقدار کے خلاف ہو گا۔ واضح رہے کہ افغان صدر حامد کرزئی متعدد مرتبہ الزام لگا چکے ہیں کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے شدت پسند سرحد پار افغانستان ميں کارروائياں کرتے ہیں اور نیٹو کو ان کے خلاف بھی کارروائی کرنا چاہیے۔

مارک رائٹ نے بتایا ہے کہ نیٹو فوجی مشن کے بعد غیر فوجی سامان بھی فروخت کیا جائے گا، جس میں دفتری فرنیچر اور جنریٹرز وغیرہ شامل ہیں۔ اس سامان کی مالیت چھ بلین ڈالر بتائی گئی ہے۔ امریکی حکام نے افغان کانٹریکٹرز کو ایسے سامان کی فروخت ایک برس قبل ہی شروع کر دی تھی اور اب تک اس سے 42 ملین ڈالر بھی کمائے جا چکے ہیں۔