1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کرکٹ:سیاستدانوں کی بےجا مداخلت

1 جون 2010

زیادہ پرانی بات نہیں جب پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی طرح کرکٹ بورڈ کے معاملات سیاست سے پاک تھے مگر اب پی سی بی ہیڈ کوارٹرز قذافی اسٹیڈیم میں اسلام آبادکا عمل دخل ضرورت سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/Neqg
پی سی بی کے موجودہ سربراہ اعجاز بٹ کی تقرری بھی سیاسی بنیاد پر ہوئی ہےتصویر: AP

پاکستان میں وزارت کھیل سے لیکر سینٹ اور قومی اسمبلی کی کھیلوں سے متعلق قائمہ کمیٹیوں کے سجیلے اراکین کی پھرتیاں اور دن رات ٹی وی چینلز پر ادائیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے خود کو صرف کرکٹ کے لئے ہی وقف کر دیا ہو۔ عالمی رینکنگ میں ساتویں درجے پر فائز پاکستانی ٹیم کی ہر شکست کو میچ فکسنگ قرار دے کر شہ سرخیوں میں جگہ پانا ان سینیٹرز اور ایم این ایز کا محبوب مشغلہ ہے ۔

ستم ظریفی یہ ہےکہ ایسے سیاست دانوں کی مداخلت کا دائرہ کار اب پاکستانی فیلڈرزکے کیچ گرانے اور ٹیم کی سلیکشن سے لیکر سٹیڈیم کے ایک انکلوژر کی تعمیر تک جا پہنچا ہے۔ اس بارے میں پی سی بی کے سابق چیئر مین خالد محمود نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سیاسی مداخلت کرکٹ کے لئے انتہائی تباہ کن ہے اوراس وقت سیاستدان کرکٹ بورڈ کے معاملات میں جتنی دخل اندازی کر رہے ہیں اس کے بارے میں سوچا بھی نہ جاسکتا تھا۔ خالد محمود کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب عبدالحفیظ کاردار اور نورخان بورڈ کے سربراہ تھے تو وہ عبدالحفیظ پیرزادہ جیسے طاقتور وزیر کھیل کی بھی مداخلت بھی قبول نہیں کرتے تھے اور یہی انکی کامیابی کا راز تھا۔ مگر گزشتہ دس برس میں پی سی بی میں ہونے والی بد انتظامی اورغلط تقرریوں کی وجہ سے سیاستدانوں کو کرکٹ میں کے ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے کا موقع میسر آیا ہے۔

Younus Khan pakistanischer Cricketspieler und Kaptitän
یونس خان کو حکمران اتحاد میں شامل ایک جماعت کی در پردہ حمایت حاصل رہی ہےتصویر: AP

خالد محمود نے بتایا کہ یہ سلسلہ 1999میں مجیب الرحمان جیسے کرکٹ اور انتظامیہ سے بالکل نابلد شخص کو بورڈ کا چئیر مین مقرر کرنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور اب تک جاری ہے۔ پی سی بی کے موجودہ سربراہ اعجاز بٹ کی تقرری بھی سیاسی بنیاد پر ہوئی ہے ۔ ایسے لوگ پی سی بی میں بیٹھ کر خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور غلطی پر غلطی کرتے رہتے ہیں۔ اس سے جو خلا پیدا ہو تا ہے اسے کسی نہ کسی کو تو پر کرنا ہوتا ہے سو اب یہ کام سیاستدان کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بد قسمتی سے پاکستان میں ہر شخص سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کا کام زیادہ بہتر کر سکتا ہے اسلئے سیاستدانوں کو بھی خوش فہمی ہے کہ وہ کرکٹ کو بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں۔

گز شتہ ہفتے پاکستان کرکٹ کو اس وقت کافی سے زیادہ جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب تنازعات میں ملوث دو سابق کپتانوں شعیب ملک اور یونس خان کو سیاسی دباؤ کے نتیجے میں پی سی بی کو قومی ٹیم میں شامل کرنا پڑا۔ حالانکہ دونوں کرکٹرز پر پابندی کے مقدمات کی سماعت ابھی جاری تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شعیب ملک کو خود حکمران جماعت جبکہ یونس خان کو حکمران اتحاد میں شامل ایک جماعت کی در پردہ حمایت حاصل تھی۔

اس بارے میں خالد محمود نے کہا کہ ًپی سی بی نے گھوڑا تانگے کے پیچھے باندھ رکھا ہے۔ بورڈ نے سزائیں پہلے سنا دیں اور باقی کاروائی بعد میں ہوئی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا ۔ ہمارے دور میں بھی سیف الرحمان اور دورے سیاستدانوں کی طرف سے کئی سرکردہ کھلاڑیوں پر پابندی لگانے کا دباؤ تھا مگر میں نے تمام تر مخالفت کے باوجود پہلے ملک قیوم سے میچ فکسنگ کی غیرجاندارنہ انکوائری کراوائیً

موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے پی سی بی کے سابق چیف ایگزیکٹو اور ملک کے سب سے پرانے کرکٹ آرگنائزر کرنل رفیع نسیم کا کہنا تھا کہ کرکٹ بورڈ میں پیسے کی ریل پیل کی وجہ سے سیاستدانوں نے بے جا مداخلت شروع کر رکھی ہے جو سراسرغلط ہے۔ یہ لوگ اختیارات کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں سستی شہرت حاصل کرنے کے بھی خواہشمند اور غیر ملکی دوروں کے بھی لالچی ہوتے ہیں۔ ماضی میں کبھی وزیر کھیل پی سی بی کے خرچ پرغیر ملکی دورے نہیں کرتے تھے مگر موجودہ وزیرکھیل نے حال ہی میں ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے کے بعد اسکا بر ملا فخریہ اظہار بھی کیا۔

کرنل رفیع کے مطابق پہلے کرکٹ بورڈ اپنے فیصلوں میں مکمل آزاد تھا انکے دورے میں یہاں کام کرنے والوں کو صرف ایک ہزار اعزازیہ ملتا تھا مگر اب ملازمین کو پانچ سے دس لاکھ تک تنخواہ مل رہی اسے دیکھ کر بھی دوسروں کی رال ٹپکتی ہے۔ کرنل رفیع نے مزید کہا کہ وزرات کھیل کو پی سی بی میں کسی بڑی مالی بے ضابطگیوں پر ضرور کارروائی کرنے چاہیے مگر اس کے انتظامی اورٹیکنکل معاملات میں دخل دینے سے گریز کرنا چاہے۔

پی سی بی کے موجودہ سربراہ اعجاز بٹ خود بھی کئی مواقع پر سیاستدانوں کی بورڈ کے معاملات میں مداخلت کے خلاف بالواسطہ طور پراپنی بیزاری کا اظہار کر چکے ہیں۔ پاکستان میں کرکٹ بورڈکے سربراہ کا تقرر صدر مملکت کرتے ہے جو بورڈ کے پیٹرن انچیف بھی ہیں اس لئے سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی بر ائے کھیل کے رکن ہارون اختر خان کا موقف ہے کہ پی سی بی صدر پاکستان کو جوابدہ ہے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ صدر کی مصروفیات کی ہی وجہ سے قائمہ کمیٹیاں پی سی بی کی نگرانی پر مامور رہتی ہیں۔ موجودہ بورڈ کی ورکنگ میں بے پناہ بے ضابطگیاں دیکھ کر ہم اسکی نشاندہی کرتے رہتے ہیں،جس کے پی سی بی والے عادی نہیں۔

Shoaib Malik
شعیب ملک کو حکمران جماعت کی حمایت حاصل ہےتصویر: AP

خالد محمود نے خبردار کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات میں اگر سیاسی مداخلت جاری رہی تو کرکٹ کا بھی وہی حشرہوگا جو حکومتی سر پرستی میں رہنے والے دیگر کھیلوں ہاکی اور سکواش کا ماضی قریب میں ہو چکا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن کرکٹ کی نبض جعلی ڈگریوں والے سیاسی نیم حکیموں سے چھڑوانا اب ناگزیر ہو چکا ہے ۔

رپورٹ: طارق سعید

ادارت: عدنان اسحاق