1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستامریکہ

پاکستان کبھی بھی امریکہ کا ٹیکٹیکل اتحادی نہیں رہا،وائٹ ہاؤس

16 جنوری 2025

وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بدھ کے روز واضح کیا کہ پاکستان کبھی بھی امریکہ کا تکنیکی یا ٹیکٹیکل اتحادی نہیں رہا، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان اتحاد کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/4pBec
وائٹ ہاؤس کے نیشنل سکیورٹی کمیونیکیشن ایڈوائزر جان کربی
وائٹ ہاؤس کے نیشنل سکیورٹی کمیونیکیشن ایڈوائزر جان کربیتصویر: Ken Cedeno/UPI/newscom/picture alliance

وائٹ ہاؤس کے نیشنل سکیورٹی کمیونیکیشن ایڈوائزر جان کربی نے بدھ کے روز واشنگٹن میں ایک پریس بریفنگ کے دوران سرحد پار سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر پاکستان کی اپیل کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کے موقف کی وضاحت کی۔ نیز پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت پر بات کرتے ہوئے کسی باضابطہ دفاعی معاہدے کی موجودگی سے انکار کیا۔

شہباز شریف کا جو بائیڈن کو جوابی خط کیا ظاہر کرتا ہے؟

جان کربی نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی امریکہ کا تکنیکی اتحادی نہیں رہا۔ کربی کا کہنا تھا، "جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان کبھی بھی امریکہ کا تکنیکی اتحادی نہیں تھا۔ میرا مطلب ہے کہ پاکستان کے ساتھ اتحاد کا کوئی معاہدہ نہیں تھا۔"

تاہم، کربی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تعاون کو تسلیم کیا۔

انہوں نے کہا، "لیکن یقینی طور پر، گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہم نے کئی سال دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مناسب طور پر پاکستان کے ساتھ شراکت داری کی ہے جو اب بھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی علاقوں میں موجود ہے۔"

اب امریکہ اور برطانیہ نے بھی پاکستان میں فوجی عدالتوں پر سوال اٹھایا

تجزیہ کاروں کے مطابق واشنگٹن کا یہ موقف امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی نازک اور پیچیدہ نوعیت کی نشاندہی کرتی ہے، جو مشترکہ سکیورٹی خدشات اور مختلف اسٹریٹیجک ترجیحات پر مبنی ہیں۔

جان کربی نے یقین دلایا کہ بائیڈن انتظامیہ مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے
جان کربی نے یقین دلایا کہ بائیڈن انتظامیہ مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہےتصویر: FAROOQ NAEEM/AFP

پاکستان کے خدشات دور کرنے کی کوشش

جان کربی نے پاکستان کے سکیورٹی خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا، "ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اب بھی، اور پاکستانی عوام اب بھی سرحد پار سے ہونے والے دہشت گردی کے تشدد کا شکار ہیں۔ ہم اسے تسلیم کرتے ہیں۔"

پاکستانی اداروں پر امریکی پابندیاں، اسلام آباد کا ردعمل

انہوں نے یقین دلایا کہ بائیڈن انتظامیہ ان مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا، "ہم اور جب تک ہم یہاں عہدہ پر رہیں گے، ان مشترکہ خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اور یہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ یہ تبدیل ہونے والا نہیں ہے۔"

امریکی صدر جو بائیڈن اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کا تازہ ترین موقف بائیڈن انتظامیہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہےتصویر: Kremlin Pool; AP Photo/Alex Brandon

بدلتا موقف

اگست، 2024 میں، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے گروپوں کو افغانستان کو پاکستان سمیت پڑوسی ممالک کے خلاف حملوں کے لیے ایک مرکز کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے کے لیے اپنے ملک کے عزم کی تصدیق کی تھی۔

امریکہ تنقید کے بجائے پاکستانی اصلاحات کی حمایت کرے، پاکستان

اس کے بعد اگلے ماہ، ترجمان میتھیو ملر نے کہا تھا کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہے گا۔

بعد ازاں دسمبر میں ملر نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے لیے امریکہ کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا تھا۔

ملر نے واشنگٹن میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، "ہم دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔"

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کا تازہ ترین موقف بائیڈن انتظامیہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان کو باضابطہ اتحادی کے طور پر دیکھنے میں واشنگٹن کی ہچکچاہٹ پاکستان کی داخلی سیاسی حرکیات میں الجھنے سے بچنے کے لیے اس کے وسیع تر نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے۔

ج ا ⁄ ص ز (خبر رساں ادارے)