1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا کابل پر ’غیر معمولی رد عمل‘ کا الزام

Maqbool Malik29 مارچ 2013

پاکستان نے افغان حکومت پر الزام لگایا ہے کہ سرحد پار فائرنگ کے خلاف احتجاج کے طور پر ایک افغان فوجی وفد کے پاکستان کے جس دورے کو منسوخ کر دیا گیا ہے، وہ کابل کی طرف سے ’ضروری سے زیادہ ردعمل‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔

https://p.dw.com/p/186Zs

کابل اور اسلام آباد کے باہمی تعلقات میں افغان فوجی وفد کے دورہء پاکستان کی منسوخی بڑھتی ہوئی خرابی کا تازہ ترین ثبوت ہے۔ اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں میں اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد نے آج جمعرات کے روز اس خبر ایجنسی کو بتایا کہ پاکستان کی رائے میں افغان حکومت نے ’ایک چھوٹے سے واقعے پر ضروری سے زیادہ ردعمل‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔

پاکستان آرمی نے افغان فوج کے 11 افسران کو دعوت دی تھی کہ وہ جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں ہونے والی فوجی مشقوں میں شرکت کریں لیکن کابل حکومت نے یہ کہہ کر یہ دورہء منسوخ کر دیا کہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ’پاکستانی فوج کے توپخانے کی گولہ باری ناقابل قبول‘ ہے۔

افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ کے گورنر فضل اللہ واحدی نے اے ایف پی کو بتایا کہ گزشتہ پیر اور منگل کو پاکستان سے اس افغان صوبے میں 50 تک راکٹ فائر کیے گئے، جن سے کافی زیادہ مالی نقصان ہوا۔ اس کے برعکس اسلام آباد میں ملکی وزارت خارجہ کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی فوجی دستے ’منظم اور ذمہ دار‘ ہیں جنہوں نے ’سرحد پار افغان علاقے سے مداخلت کے چند واقعات‘ میں صرف اپنا رد عمل ظاہر کیا تھا۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بقول افغان فوجی وفد کو پاکستان کے جس دورے کی دعوت دی گئی تھی، اس کا مقصد ’باہمی تعاون اور دوطرفہ اعتماد‘ میں اضافہ تھا کیونکہ اسلام آباد کا خیال ہے کہ ایسی سرگرمیاں علاقے میں امن کے وسیع تر مفاد میں ہیں جو جاری رہنی چاہیئں۔

مغربی ملکوں کے اہلکاروں کی رائے میں 1996ء سے 2001ء تک افغانستان میں طالبان انتظامیہ کی حمایت کرنے والا ملک پاکستان افغان حکومت اور وہاں طالبان باغیوں کے درمیان امن کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن پاکستان اور افغانستان دونوں ہی ایک دوسرے کو گہری بداعتمادی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُس خونریزی کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں جو ان کی دو ہزار 400 کلو میٹر طویل اور قدرے غیر واضح مشترکہ سرحد کے آر پار طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے کی جاتی ہے۔

اسلام آباد اور کابل کے باہمی تعلقات میں حال ہی میں اس وقت بہتری دیکھنے میں آئی تھی جب چار فروری کو برطانیہ میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی میزبانی میں تینوں ملکوں کی سربراہی ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن اس کے بعد سے پاکستانی اور افغان حکام کے مابین اتفاق رائے کے فقدان اور ایک دوسرے کے خلاف عوامی سطح پر لگائے جانے والے سلسلہ وار الزامات کی وجہ سے دوطرفہ کھچاؤ زیادہ ہوا ہے اور افغان فوجی وفد کے دورہء پاکستان کی منسوخی اس کی تازہ ترین مثال ہے۔

کابل سے موصولہ تازہ رپورٹوں کے مطابق پاک افغان تعلقات میں تازہ کشیدگی سے افغان طالبان کو امن بات چیت کے لیے جلد ہی مذاکرات کی میز تک لا سکنے کی امیدوں پر منفی اثر پڑے گا۔

mm / ai (AFP)