1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا وہ ایوان جہاں ووٹ کروڑوں میں بکتے ہیں

9 فروری 2021

پاکستان کے ایوان بالا کے لیے ہمیشہ ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی آئی ہے۔ کیا پی ٹی آئی حکومت اس طریقہ کار کو بدل پائے گی؟

https://p.dw.com/p/3p883
Pakistan Wahlen Imran Khan PTI
تصویر: Aamir QureshiAFP/Getty Images

وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن کو صاف شفاف بنانے کے لیے اس کی ووٹنگ خفیہ کی بجائے کھلے طریقے سے ہونی چاہیے۔

اس سلسلے میں حکومت نے چھ فروری کو ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے قواعد وضوبط کو بدل دیا۔ اپوزیشن نے شور مچایا کہ "ہم رات کے اندھیرے میں جاری کیے جانے والے حکم ناموں کو نہیں مانتے۔"

حزب اختلاف کا موقف ہے اگر حکومت کو اصلاحات لانی تھیں تو اپوزیشن سے مشاورت کرکے مل کر منتخب ایوان سے آئینی ترمیم منظور کراتی۔ لیکن اپوزیشن کے بقول اس طرح یک طرفہ فرمان جاری کرنے سے حکومت کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کے ایک بینچ کے سامنے ہے جسے دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ دینا ہے۔

ووٹ ضمیر کا نوٹ کا؟

بلوچستان کے سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سینیٹ کے الیکشن میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ووٹوں کی خرید وفروخت ہوتی آئی ہے۔

آبادی کی بنیاد پر ہونے والے عام انتخابات میں قومی سطح کی پارٹیاں بلوچستان کو یکسر نظرانداز کرتی ہیں۔ لیکن سینیٹ کے الیکشن میں وہاں کا ووٹ سب سے قیمتی ووٹ بن جاتا ہے جہاں ریاستی قوتیں اور مالدار عناصر انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

Pakistan ehemaliger Staatsoberhaupt Asif Ali Zardaris Rückkehr
تصویر: DW/R. Saeed

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق "یہاں بولیاں لگتی ہیں اور رکن صوبائی اسمبلی کا ووٹ پانچ سے سات کروڑ میں بھی بکتا ہے۔" اس لیے ان کے خیال میں اگر عمران خان کی حکومت اس طریقہ کار کو شفاف بنانا چاہتی ہے تو اس سے نظام میں بہتری آ سکتی ہیں۔

پی ٹی آئی کا احساس عدم تحفظ

لیکن اسلام آباد کے سینئر صحافی  مرتضی سولنگی کے مطابق پی ٹی آئی حکومت جس عجلت اور یک طرفہ انداز میں ووٹنگ کا طریقہ کار بدلنے کی کوشش کر رہی ہے اس کا تعلق نظام کو بہتر کرنے کی بجائے حکومت کے اپنے احساسِ عدم تحفظ سے ہے۔

Pakistan Wahlkampf Unfall von Imran Khan
تصویر: ASIF HASSAN/AFP/Getty Images

"تحریک انصاف کے اندر کئی سینئر لوگ حکومتی کارکردگی اور عمران خان کے انداز حکمرانی سے نالاں ہیں۔ یہ لوگ ڈھائی سال میں اپنے حلقوں کےعوام کو کچھ نہیں دے سکے۔  وہ کہتے ہیں کہ ہم کیوں عمران خان کی چنیدہ شخصیات کو ووٹ دیں؟ وہ سوال کرتے ہیں کہ بابر اعوان، شہزاد اکبر، حفیظ شیخ، ثانیہ نشتر اور ذلفی بخاری جیسے لوگوں کا کیا تعلق ہے پی ٹی آئی سے؟ میرے خیال میں حکومت کو پتہ ہے کہ اس کے اپنے لوگ اِدھر اُدھر ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے وہ انہیں پارٹی قیادت کے حکم سے پابند کرنے کے لیے یہ کر رہی ہے۔"

پارلیمان کی بجائے دیگر اداروں پرانحصار

سینئر صحافی ضیغم خان کے خیال میں پی ٹی آئی کی پالیسی تضادات کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے سینیٹ میں جب اپوزیشن چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی تو خفیہ ووٹنگ میں اس کے گیارہ سینیٹرز نے اپنی جماعتوں کو دھوکہ دیا اور وہ تحریک ناکام ہوگئی۔ اس وقت پی ٹی آئی نے اسے ویلکم کیا اور اسے ان ارکان کا "ضمیر کا ٖفیصلہ" قرار دے کر سراہا گیا۔

ضیغم خان کے مطابق حکومت ووٹنگ سے متعلق اصلاحات کو پارلیمان سے منظور کرانے کی بجائے سپریم کورٹ پر انحصار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "عدلیہ نے اگر اس معاملے میں بھی حکومت کو کندھا دیا تو یہ ایک اسکینڈل ہوگا۔"

Pakistan Mordfall Journalist Danial Pearl
تصویر: Waseem Khan/AP Photo/picture alliance

نمبر گیم کیا ہے؟

سینیٹ کے اس انتخاب میں آدھی نشستیں یعنی 48 سیٹیں خالی ہوں گی۔ قبائیلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں ضم ہو جانے کے بعد اس بار فاٹا کی خالی ہونے والی چار نشستوں پر انتخاب نہیں ہوگا اور یہ سیٹیں ختم ہو جائیں گی۔

ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن دیکھتے ہوئے نظر یہ آتا ہے کہ اس الیکشن کے نتیجے میں حکمراں پی ٹی آئی سینیٹ میں 28 سیٹیں حاصل کرنے کے بعد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گئی۔ اس کی کوشش ہوگی کہ چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر سادہ اکثریت حاصل کر لے۔

Pakistan Sadiq Sanjrani, Vorsitzender des Senats
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/PPI

اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے پاس 19 سیٹیں آنے کی توقع ہے جبکہ مسلم لیگ نواز کے حصے میں 17 نشستیں آسکیں گی۔

یوں مارچ کے بعد سینیٹ میں مسلم لیگ نواز کی بجائے پیپلز پارٹی حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے۔ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر سینیٹ میں حزب اختلاف حکومت کو مشکل وقت دے سکتی ہے۔

چھوٹی پارٹیوں میں دیگر جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی، متحدہ قومی مومنٹ، بی این پی (مینگل)، باپ پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی ، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی شامل ہیں۔