1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا موجودہ اقتصادی ماڈل ناقابل عمل، ورلڈ بینک

28 دسمبر 2023

عالمی بینک کا کہنا ہےکہ پاکستان کا موجودہ اقتصادی ماڈل کام نہیں کر رہا ہے یہ اپنے ہم عصروں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ غربت میں کمی میں پیش رفت اب مخالف سمت میں جا رہی ہے اور ترقی کے فائدے چھوٹے اشرافیہ طبقے تک محدود رہ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4aeJq
عالمی بینک کے پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ترقی کو روکنے والی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے کارروائیوں کی اشد ضرورت ہے
عالمی بینک کے پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ترقی کو روکنے والی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے کارروائیوں کی اشد ضرورت ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP

پاکستان میں عالمی بینک کے ڈائریکٹر ناجی بن حسائن نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سہ ماہی تحقیقاتی جریدے 'ڈیولپمنٹ ایڈوکیٹ پاکستان' کے تازہ شمارے میں تحریر کردہ پالیسی وژن مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان کا موجودہ اقتصادی ماڈل کام نہیں کررہا ہے۔ ملک میں غربت میں کمی میں پیش رفت اب مخالف سمت کی طرف جارہی ہے اور ترقی کے فائدے ایک چھوٹے سے اشرافیہ طبقے تک محدود رہ گئے ہیں۔

بن حسائن نے لکھا ہے،" اس بات پر وسیع تر اتفاق رائے ہے کہ ایسی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے کارروائی کی ضرورت ہے جن سے ترقی متاثر ہوئی ہے، صرف چند افراد کو فائدہ ہوا ہے اور بہت اتارچڑھاو اور کم ترقی ہوئی ہے۔"

کیا پاکستان ورلڈ بینک کی تجاویز کے مطابق معاشی اصلاحات کر پائے گا؟

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زرعی خوراک اور توانائی جیسے اہم شعبوں میں پالیسی کی ناکامیوں اور بگاڑ کو دور کیا جانا چاہئے۔ زراعت میں سبسڈیز اور قیمتوں کی پابندی کو ختم کرنے والے ان امور کی اصلاحا ت کی ضرورت ہے، جو چھوٹے کسانوں کو کم آمدنی والے کاشتکاری نظام میں مقید کردیتے ہیں اور زیادہ وسائل کے استعمال والے اور ماحول کو نقصان پہنچانے والے پیداواری طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ایسی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جن سے ترقی متاثر ہوئی ہے اور صرف چند افراد کو فائدہ ہوا ہے
ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ایسی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جن سے ترقی متاثر ہوئی ہے اور صرف چند افراد کو فائدہ ہوا ہےتصویر: ARIF ALI/AFP

اصلاحی اقدامات کو مخالفت کا سامنا ہوگا

عالمی بینک کے پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ترقی کو روکنے والی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے کارروائیوں کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات سے مالی استحکام کی جانب پیش رفت مستحکم ہوگی، تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی بہتر ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجی شراکت داروں کی تعداد میں اضافہ کیا جاناچاہئے اور قابل تجدید توانائی میں اضافے کے ذریعے بجلی کی پیداوار پر آنے والے بہت زیادہ اخراجات کو کم کیا جانا چاہئے۔

ماہر اقتصادیات کے مطابق گوکہ پالیسی میں اس طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت کی افادیت ثابت ہوچکی ہے لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ کسی بھی اصلاحی کوشش کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان میں مہنگائی پچاس سال کی بلند ترین سطح پر

ناجی بن حسائن کا کہنا تھا کہ "سوال یہ ہے کہ کیا ارباب حل وعقد موجودہ بحران سے پیدا ہونے والے مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کام کریں گے جس کی ضرورت ہے۔" انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ایک روشن، زیادہ خوشحال اور زیادہ پائیدار مستقبل کے مفادات کے لیے متحد ہو۔"

انہوں نے مزید کہا کہ مالیاتی نظام کو کافی حد تک بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ قرضوں کی فراہمی کے اخراجات اور ریونیو موبلائزیشن غیر پائیدار سطح پر ہیں، جب کہ انسانی ترقی اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے، اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے اور بدلتے ہوئے ماحول کے مطابق ڈھالنے کے لیے وسائل ناکافی ہیں۔

زرعی خوراک اور توانائی جیسے اہم شعبوں میں پالیسی کی ناکامیوں اور بگاڑ کو دور کیا جانا چاہئے
زرعی خوراک اور توانائی جیسے اہم شعبوں میں پالیسی کی ناکامیوں اور بگاڑ کو دور کیا جانا چاہئےتصویر: AFP

ماہر اقتصادیات کا مشورہ

انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومتی اخراجات کے معیار کو مستحکم اور بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے رجعت پسند اور تحریف آمیز سبسڈیز میں کمی اورغیر موثر سرکاری اداروں سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنا ہوگا۔

پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے پر مجبور

انہوں نے مشورہ دیا کہ جائیداد پر ترقی پسند ٹیکس لگا کر اور ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں کو ملنے والی ٹیکس رعایت میں کمی کرکے زیادہ ریونیو حاصل کیا جانا چاہئے۔

عالمی بینک کے عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ معیار زندگی میں بہتری کے لیے مضبوط ترقی اور زیادہ متحرک اور کھلی معیشت کی ضرور ت ہے لیکن بیوروکریسی کی جانب سے حائل کی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنا سب سے اہم ہے۔

ج ا/ ص ز (نیوز ایجنسیاں)