1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا سیاسی بحران اور فوج کا رویہ

18 جنوری 2012

پاکستان میں مسلسل گہرے ہوتے سیاسی بحران کے دوران فوج کا حکومت پر کنٹرول حاصل نہ کرنے کا مسلسل عمل تجزیہ کاروں کے نزدیک ایک حیران کن رویہ ہے۔ پاکستان میں قبل از وقت انتخابات کا امکان بڑھ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/13l9J
گیلانی اور زرداریتصویر: AP

پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ،عدلیہ اور فوج کے درمیان عدم اطمینان کی وجہ سے پاکستان اور بیرون پاکستان ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ فوج اقتدار پر قابض ہو سکتی ہے۔ اسی تاثر کی وجہ سے ملک کے اندر تمام سیاسی جماعتوں نے غیر سیاسی عمل کی مخالفت کی ہے۔ اس کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے بھی سویلین حکومت کی حمایت کا بیان سامنے آ چکا ہے۔

پاکستان میں مختلف سیاسی بے چینی کے ادوار میں فوج گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران تین مرتبہ اقتدار پر قابض ہو چکی ہے۔ ان میں جنرل محمد ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی جانب سے سیاسی حکومتوں کو فارغ کر کے اقتدار پر قبضہ کیا گیا تھا۔ ایک حکومت جنرل یحیٰ خان کی بھی تھی مگر اسے جنرل ایوب خان کا تسلسل خیال کیا جاتا ہے۔

Pakistan Armeechef General Ashfaq Pervez Kiani
پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانیتصویر: Abdul Sabooh

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک امریکی انسٹیٹیوٹ برائے امن کے ریسرچر مؤید یوسف کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ سیاسی صورتحال کا زمانہ 1990 کی دہائی کا ہوتا تو فوج کب کی سیاسی حکومت کو فارغ کر کے حکومت پر اپنا قبضہ مکمل کر چکی ہوتی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ کشیدگی میں سیاسی حکومت اور فوج کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ دونوں پیچھے ہٹتے ہوئے معاملات کو بہتر کریں۔ ایسے امکانات کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے کہ رواں برس موسم گرما کے اختتام پر عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کا چوکس میڈیا بھی فوج کی کسی بھی مہم جوئی پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق میڈیا کی یہ چوکسی حقیقت میں فوج کے راستے میں کھڑی ایک رکاوٹ ہے۔ اسی طرح بعض مبصرین کا خیال ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو جس طرح عدالتی دباؤ کا سامنا ہے وہ اپنی جگہ ہے مگر یہی عدالت کسی طور فوج کے کسی بھی ایسے عمل کو جائز اور درست قرار دینے کے حق میں دکھائی نہیں دیتی۔ ایسے فوجی عوامل کو ماضی کی عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت درست قرار دے چکی ہیں۔

Pakistan Islamabad Gebäude vom Vefassungsgericht
سپریم کورٹ آف پاکستان کا صدر دروازہتصویر: AP

اس صورت حال میں اپوزیشن جماعتیں بھی خوش ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیڈر میاں محمد نواز شریف بھی فوج کے حامی نہیں ہیں۔ سن 2008ء سے آصف زرداری کے منصب صدارت پر بیٹھنے کے بعد سے سیاسی افراتفری کا عمل جاری ہے اور اب یہ اپنے انتہائی مقام پر پہنچتا دکھائی دے رہا ہے۔ مؤید یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستانی ادارے تصادم کی راہ پر ہیں اور اس میں کسی کو فائدہ نہیں پہنچ پائے گا۔

ایک دو ہفتے قبل پاکستان میں فوجی بغاوت کی افواہیں گردش کرنے لگی تھیں۔ ان میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت کے اختتام کو فوقیت حاصل تھی۔ ایسی قیاس آرائیاں پہلے بھی کی گئیں لیکن ہر بار یہ غلط اور بے بنیاد ثابت ہوئیں۔ عدالت کی جانب سے و زیر اعظم گیلانی پر دباؤ ہے کہ وہ سوئس حکام کو صدر زرداری کے خلاف مالی بد عنوانی کے لیے بند مقدمے کو ازسرنو شروع کرنے کا خط تحریر کریں لیکن وزیر اعظم کسی طور اپنے صدر کے خلاف ایسا کرنے کی جراٴت نہیں کر رہے اور کسی نہ کسی طور وہ عدالتی دباؤ کو برداشت کر رہے ہیں۔ حکومت کو میمو گیٹ اسکینڈل اور این آر او کیسز کے حوالے سے خاصے عدالتی دباؤ کا سامنا ہے۔

رپورٹ: عابد حسین / اے پی

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں