1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا زرعی بحران، کسان پریشان

28 ستمبر 2024

موسمیاتی تبدیلیوں، زرعی اجناس کی کم ہوتی قیمتوں اور ان کی بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت نے پاکستان کے زرعی شعبے کو سنگین بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4l9hR
ایک پاکستانی کسان بیج دکھا رہا ہے۔
کسانوں کے مطابق ان کے پاس اچھے بیج خریدنے کے پیسے نہیں۔تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

کئی زرعی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ صورتحال اگلے سال ملک میں شدید غذائی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔

پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ خالد کھوکھر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ زرعی شعبے کے لیے یہ سال بہت برا تھا۔ کاٹن کی پیداوار میں اس سال چونسٹھ فی صد کمی دیکھی جا رہی ہے، آم کی ساٹھ فی صد فصل موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ضائع ہو گئی۔ کسانوں کو زرعی اجناس کا معقول معاوضہ نہیں مل سکا ۔اگلے سال کسان گندم کی فصل اگا کر نقصان اٹھانے کی بجائے دوسری فصلوں کو اگانے کو ترجیح دیں گے۔ ان کے خیال میں اگلے سال دس سے پندرہ فی صد گندم کم کاشت ہونے کا امکان ہے جبکہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار مناسب مقدار میں کھادوں اور ادویات کا استعمال نہیں کر سکیں گے۔ وہ مہنگا معیاری بیج استعمال کرنے کی بجائے گھر میں پڑا بیج ہی استعمال کریں گے، جس سے گندم کی پیداوار مزید کم ہو گی اور پاکستان کو باہر سے مہنگی گندم منگوانا پڑے گی۔

یاد رہے پاکستان کے کاشتکار پہلے ہی پانی کی قلت، جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کی کمی، موثر حکومتی زرعی پالیسیوں کے فقدان اور مناسب تحقیق کے نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

ایک پاکستانی خاتون کپاس توڑ رہی ہے
اس بار کپاس کی فصل بھی کم رہی ہےتصویر: Mansoor/Xinhua News Agency/picture alliance

زرعی اجناس کی قیمتوں میں کمی

پتوکی کے نواحی گاوں سے تعلق رکھنے والے کاشتکار محمد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت انتالیس سو روپے فی من مقرر کی تھی لیکن زیادہ گندم امپورٹ کرنے کے غلط فیصلے کی وجہ سے حکومت نے اس سال کسانوں سے گندم خریدنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لیے کسانوں نے اپنی گندم بائیس سو روپے فی من کے حساب سے بیچی جس سے ان کی پیداواری لاگت بھی پوری نہیں ہو سکی ہے۔ان کے بقول اب  کسانوں کے لیے گھر چلانا بھی مشکل ہو گیا ہے اور وہ دودہ بیچ کر گزارہ کر رہے ہیں۔ حافظ آباد کے ایک زمیندار محمد حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گندم سے بھی بری صورتحال چاول کی فصل کی ہے جس کی قیمت مارکیٹ میں بہت گر گئی ہے۔ ان کے مطابق ہائبرڈ چاول کی قیمت جو پچھلے سال پینتالیس سو روپے فی من تھی ان اٹھارہ سو روپے فی من تک گر چکی ہیں۔ عام طور پر ان دنوں زمین ٹھیکے پر لینے والے نقد رقم لے کر کسانوں کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے، اب ٹھیکے کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں کوئی بھی زمین ٹھیکے پر لینے کو تیار نہیں ہے۔

پیداواری لاگت میں اضافہ

کاشتکار محمد حسین کے بقول کھاد بیج اور زرعی ادویات کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں جبکہ زرعی اجناس کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ ان کے مطابق جب سیزن قریب آتا ہے تو ڈی اے پی اور دوسری زرعی مداخلات بلیک ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور کئی مرتبہ ان کی کوالٹی بھی بہتر نہیں ہوتی۔ محمد حسین سمجھتے ہیں کہ حکومت ان مافیاز پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ خالد کھوکھر کے بقول تین سال پہلے تک تو کسان کو آٹھ روپے پینتیس پیسے میں بجلی کا یونٹ ملتا تھا لیکن اب کسانوں کے لئے بجلی کے یونٹ کی قیمت ساٹھ روپے فی یونٹ تک پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ بھارتی پنجاب میں کسانوں کو آٹھ گھٹے تک بجلی فری ملتی ہے۔ '' بھارت میں یوریا بیگ کی قیمت پاکستانی کرنسی میں ایک ہزار روپے کے قریب ہے یہاں اس کی قیمت چھیالیس سو روپے اور بلیک میں اس کی قیمت پچپن سو روپے ہوتی ہے۔ وہاں ڈی اے پی کی بوری چار ہزار پاکستانی روپوں میں ملتی ہے ہمارا کسان اس کے لئے چودہ ہزار روپے ادا کرتا ہے۔ ‘‘

پاکستان: کسانوں کے احتجاج میں مزاحمت کرتی واحد خاتون

موسمیاتی تبدیلیاں

زرعی ماہر صوبیہ روز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیاں زرعی شعبے کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں، روایتی موسم بدل رہے ہیں، درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، بے موسمی بارشیں ہو رہی ہیں اور فصلوں کی بوائی اور کٹائی کی تاریخیں تبدیل ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال میں کسانوں کو زیادہ قوت برداشت کے حامل بیجوں کی طرف آنا ہوگا اور متفرق فصلوں کا ماڈل اپنانا ہوگا۔ ان کے مطابق اب کسانوں کو ایک فصل پر انحصار کی بجائے آمدن کے دوسرے ذرائع کی طرف بھی متوجہ ہونا ہو گا تاکہ اس کا نقصان کم سے کم ہو۔صوبیہ کی رائے میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے لانگ ٹرم سنگین اثرات کا زیادہ ادراک نہیں ہے۔ ان کے خیال میں یونیورسٹیوں اور پالیسی ساز اداروں کو نئی ورائیٹیوں کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔