1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: وبائی امراض کی روک تھام کے لیے پرعزم خاتون ماہر

8 اکتوبر 2023

ڈاکٹر نادیہ نورین پاکستان کے داخلی مقامات بالخصوص بندرگاہوں پر تعینات ورکرز کو حفظان صحت کے اصولوں کا اطلاق ممکن بنانے اور وبائی امراض کا پھیلاؤ روکنے کی تربیت دینے کے لیے خصوصی ورکشاپس کا انعقاد کرتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4XCxo
Pakistan Dr. Nadia Noreen Epidemiologin
ڈاکٹر نادیہ نورینتصویر: Nadia Noreen

 اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نادیہ نورین  وزارتِ صحت میں فیلڈ ایپی ڈیمولوجسٹ یعنی وبائی امراض کی ایک ماہر کے طور پر فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ  پاکستان میں صنفی امتیاز کی دیواروں کو توڑنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے پاکستان فیلڈ ایپی ڈیمولوجی تربیتی پروگرام (ایف ا ی ایل ٹی پی) سے پوسٹ گریجویشن کی ہے اور پبلک ہیلتھ انوینشن نیٹ ورک " ٹیفی نیٹ " کی سرگرم کارکن ہیں۔ یہ نیٹ ورک عام افراد کو  صحت سے متعلق درپیش خطرات سے بچانے کے لئے دنیا بھر میں تربیتی پروگرام  منعقد کرتا ہے۔

 فی الوقت ڈاکٹر نادیہ نورین وزارت صحت میں فوکل پرسن فار انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشن فار بارڈر ہیلتھ سروسز کی حیثیت  سے کام کررہی ہیں۔ یہ شعبہ پاکستان کے داخلی مقامات اور سرحد پار سے وائرل انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنےکا ذمہ دار ہے، جس میں بندرگاہوں کے داخلی مقامات بھی شامل ہیں۔

Pakistan Dr. Nadia Noreen Epidemiologin
ڈاکٹر نادیہ نورین ایک ورکشاپ کے شرکا کو وبائی امراض سے نمٹنے کی تربیت دیتے ہوئےتصویر: Center of Diseases Control US

 ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، "دنیا بھر میں بندرگاہیں تجارت اور بین الاقوامی رابطے  کے لیے  مرکزی مقامات کا کردار ادا کرتی ہیں لیکن حفظان صحت کے اصولوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے سی پورٹ انٹری پوائنٹس وبائی امراض کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔" ان کے مطابق پاکستان میں بھی بندرگاہوں کو بطور داخلی مقامات متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جن کی مسلسل نگرانی کی اہمیت کورونا کی عالمی وبا کے بعد مزید اجاگر ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا،" اس وبا نے زندگی کے ہر شعبے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔  پاکستان میں صحت عامہ کے شعبے کے لئے یہ وبا ایک ٹیسٹ کیس تھی، جس سے  وبائی امراض کا پھیلاؤ روکنے کے لیے  فرنٹ لائن  پر تربیت یافتہ اور ہنر مند  عملے کی اہمیت بھی واضح ہوئی۔''

 وائرل انفیکشنز میں سی پورٹ انٹری پوائنٹس کا کیا کردار ہے؟

ڈاکٹر نادیہ نورین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں کراچی پورٹ، بن قاسم اور گوادر تین بین الاقوامی معیار کی بندرگاہیں ہیں، یعنی ان بندرگاہوں کو انٹرنیشنل  ہیلتھ ریگولیشن کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے اور یہ بحری جہازوں میں صفائی کے معیار کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کی مجاز بھی ہیں۔

 وہ مزید بتاتی ہیں کہ  گذشتہ تین چار عشروں میں بین الاقوامی تجارت کے بڑھنے سےسرحد پار  وبائی امراض کا پھیلاؤ ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ملکوں کے لئے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جس سے نمٹنے کے لئے  داخلی مقامات پر حفظان صحت کے اصولوں  کا موثر اطلاق ضروری ہے ۔

Pakistan Dr. Nadia Noreen Epidemiologin
ڈاکٹر نادیہ کراچی پورٹ پر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تصویر: Dr. Nadia Noreen

 ڈاکٹر ناد یہ کےمطابق، ''پاکستان میں اندرون ملک داخلے کے اٹھارہ مقامات پر صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بہت سے مقامات پر لاجسٹک اور دیگر وسائل خاص طور پر تربیت یافتہ عملے کی کمی آڑے آتی ہے۔ ان مقامات میں پاکستان کی تینوں بندرگاہیں بھی شامل ہیں، جو  بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہیں۔

سی پورٹ پر تربیتی ورکشاپس کے مقاصد کیا ہیں؟

ڈاکٹر نادیہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مقامی اور عالمی آبادیوں کے تحفظ کے لئے صحت  کے بین الاقوامی  ضوابط  (IHR) کے نفاذ میں تنوع اور مساوات کو یقینی  بنانا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے سی پورٹ پر اہلکاروں کی تربیتی ورکشا پس کا انعقاد ان کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ اس طرح ورکشاپس کے شرکاء کو بنیادی معلومات اور مہارتیں  فراہم کی جاتیں ہیں تاکہ بوقت ِضرورت وہ وائرل انفیکشن سے بچاؤ کے لئے مؤثر اسٹرٹیجی تیار  کر سکیں۔

ڈاکٹر نادیہ مزید بتاتی ہیں کہ دوسرے مرحلے پر ورکشاپس کے یہ شرکاء بندرگاہوں  پر دوسرے کارکنان کو تربیت دیں گے اس لیے ان ورکشاپس کو "ٹریننگ آف ٹریننرز" کا نام دیا گیا ہے۔ اس ماہر صحت کا کہنا ہے کہ مزکورہ اقدامت کی وجہ سے بندرگاہوں کے داخلی مقامات پر  افرادی قوت بڑھانے اور  بین الاقوامی معیار کے مطابق حفظان صحت کے اصولوں کا اطلاق ممکن بنانے میں بہت  مدد ملی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی بندرگاہوں کے داخلی مقامات پر عالمی معیار  کے مطابق صحت و صفائی کا اطلاق انتہائی ضروری ہے۔ اس طرح کی پائلٹ ورکشاپس  بندرگاہ پر   کسی وائرس یا وبائی مرض کے پھیلاؤ سے پیداشدہ ہنگامی صورتحال سے بہتر طور پر نمٹنے میں معاونت کر رہی ہیں۔اس کے ساتھ ہی ان سے بندرگاہ پر  ورکرز کی کارکردگی  میں بہتری کے کلچر کو پروان چڑھانے میں بھی مدد مل رہی ہے۔ 

ڈاکٹر نادیہ بتاتی ہیں کہ وہ پاکستان کے دیگر داخلی مقامات پر بھی اس طرح کے تربیتی سیشنز  منعقد کر چکی ہیں۔ ان کے مطابق ٹیفی نیٹ امریکہ کے سینٹر آف ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی مدد سے80 ممالک میں 23 ہزار ورکرز کی تربیت  کر چکا ہے۔ اس اعلیٰ تربیت یافتہ عملےمیں پاکستان سے  286 ایپی ڈیمولوجسٹ بھی شامل ہیں، جو دنیا بھر میں  وبائی امراض کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ 

Pakistan Dr. Nadia Noreen Epidemiologin
ڈاکٹر نادیہ کے مطابق حفظان صحت کا خاص خیال رکھنا وبائی امراض کے خلاف لڑائی میں ایک موثر ہتھیار ہےتصویر: Dr. Nadia Noreen

اداروں کی ترقی کے لیے صنفی تنوع ناگزیر

ڈاکٹر  نادیہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ایک فیلڈ ایپی ڈیمولوجسٹ کی حیثیت سے کام کرنا ایک خوشگوار تجربہ رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ فرنٹ لائن رسپانس اور صحت کے شعبے میں کسی ہنگامی صورتحال کی تیاری کے لیے پاکستان میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے ۔ وبائی امراض کے ماہر کی حیثیت سے ان کا سفر پاکستانی خواتین کے لیے اس حوالے سے مشعل راہ ہے کہ اگر خواتین پرعزم ہوں تو کسی بھی فیلڈ میں نام بنا سکتی ہیں۔

ڈاکٹر نادیہ کے مطابق کراچی سی پورٹ پر خواتین کے لیے  کام کا  ماحول انتہائی خوشگوار ہے۔ وہاں ایک خاتون میڈیکل آفیسر ایک سال سے زائد عرصے سے پورٹ ہیلتھ آفیسر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ ڈاکٹر نادیہ خود بھی گزشتہ تین سالوں سے اس بندرگاہ پر ایک قائدانہ  کردار ادا کر رہی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں ہر شعبے میں اس  طرح کا ماحول پروان چڑھانا ضروری ہے، جہاں جنس کی بجائے  کام پر توجہ مرکوز رکھ کر مہارت و تجربے کو اہمیت دی جائے ۔

ڈاکٹر نادیہ کا کہنا ہے کہ کام کی جگہ پر صنفی تنوع کو فروغ دینا نا صرف انفرادی حیثیت میں خواتین کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ اداروں اور ملک کی مجموعی ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ان کے مطابق غیر روایتی شعبوں میں کیریئر بنانے  کے لیے زیادہ سے زیادہ خواتین کی حوصلہ افزائی سے زندگی کے ہر  شعبے میں خوشگوار اور مثبت ماحول کا قیام ممکن ہوگا، جس سے لا محالہ اداروں کی کارکردگی بھی بہتر  ہوگی۔