1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان نے طالبان کے تین اہم رہنما رہا کر دیے

زبیر بشیر27 نومبر 2013

پاکستانی حکومت نے ملکی جیلوں میں قید مزید تین طالبان رہنماؤں کو رہا کر دیا ہے۔ پاکستانی حکام اور طالبان ذرائع کے مطابق اس رہائی کا مقصد افغان امن عمل میں معاونت فراہم کرنے کے ساتھ تعطل کے شکار مذاکرات کو بحال کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1APA0
تصویر: Reuters

منگل کو رہائی پانے والے ان طالبان رہنماؤں میں ملا عبدالاحد جہانگیروال (طالبان رہنما ملا عمر کے سابق مشیر)، ملا عبدالمنان (افغان صوبے ہلمند کے سابق گورنر) اور مُلا یونس (سابق ملٹری کمانڈر) شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے پاکستانی حکام اور طالبان ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ بھی بہت سے طالبان قیدیوں کو خاموشی سے رہا کردیا گیا تھا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان اہلکاروں کا کہنا تھا کہ اکتوبر کے مہینے میں رہا ہونے والے یہ طالبان افغانستان میں مقامی سطح کی قیادت کا حصہ تھے۔

Taliban-Kämpfer
پاکستان اب تک چار درجن سے زائد طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہےتصویر: AP

گزشتہ ہفتے افغان رہنماؤں کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس دوران انہوں نے پاکستانی قید سے رہائی پانے والے طالبان رہنما مُلا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی۔ حالیہ رہائی افغان وفد کے پاکستان کے دورے سے واپس جانے کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں عمل میں آئی ہے۔ مُلا عمر کے بعد طالبان کے سب سے بڑے رہنما سمجھے جانے والے عبدالغنی برادر کی رہائی ستمبر کے مہینے میں عمل میں آئی تھی۔

عبدالغنی برادر کو رہا کیے جانے کے حوالے سے متضاد آرا پائی جاتی ہے، کچھ تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی رہائی سے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں معاونت اور خطے میں قیام امن میں معاونت ملے گی جبکہ کچھ کی رائے اس کے برعکس ہے۔

پاکستان افغانستان میں قیام امن اور طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے اب تک چار درجن سے زائد طالبان رہنماؤں کو رہا کر چکا ہے۔ اس جذبہ خیر سگالی کے ثمرات تاحال محسوس نہیں کیے جاسکے۔ اِس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ ان میں سے اکثر طالبان واپس جانے کے بعد پھر سے افغان حکومت کے خلاف جنگ میں مصروف ہو گئے ہیں۔

لیکن ابھی تک ان قیدیوں کی رہائی سے اس مذاکراتی عمل کو کسی قسم کا فائدہ پہنچنے کے اثرات نظر نہیں آئے بلکہ کچھ حکام کا بھی ماننا ہے کہ ان قیدیوں میں سے کچھ دوبارہ افغان حکومت سے جنگ کے لیے میدان میں اتر چکے ہیں۔

Loja Dschirga 21.11.2013 Kabul Karsai Rede
افغان طالبان براہ راست افغان صدر حامد کرزئی، ان کی حکومت یا پھر کسی بھی حکومتی نمائندے کے ساتھ بات چیت سے انکار کرتے رہے ہیںتصویر: Reuters

کچھ قیدیوں کو رہا کیے جانے کے باعث پاکستان کے افغانستان اور امریکا سے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے جہاں دونوں ملکوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ان سابق قیدیوں کے ٹھکانوں اور سرگرمیوں کی نگرانی نہیں کر رہا۔

واضح رہے کہ افغان طالبان براہ راست افغان صدر حامد کرزئی، ان کی حکومت یا پھر کسی بھی حکومتی نمائندے کے ساتھ بات چیت سے انکار کرتے رہے ہیں۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کی کوششیں اس وقت ناکام ہو گئی تھیں، جب طالبان نے دوحہ میں قائم اپنے دفتر پر اسی نشان اور جھنڈے کا استعمال کیا تھا جو وہ 1996 میں طالبان حکومت کے وقت استعمال کرتے تھے۔

ماضی میں پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں جہاں پاکستان نے اس گروپ کو 1996 میں حکومت کے قیام میں مدد فراہم کی تھی اور اسی لیے افغانستان مسلسل پاکستان پر دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔

متعدد تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ سے بچنے کے لیے طالبان سے تعلقات استوار کر رکھے ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کی جانب سے اہم رہنماؤں کو قیدی بنائے جانے کے بعد طالبان کسی حد تک پاکستان کے خلاف بداعتمادی کا شکار ہیں۔