1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ان کی سنیے جو سن نہیں سکتے

18 نومبر 2022

پاکستان میں کانوں کی بیماریوں کے شکار لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن لگتا ہے کہ ارباب اختیار کو اس کی شدت کا درست اندازہ نہیں ہے۔ قوت سماعت سے جڑے ان مسائل کی وجوہات کیا ہیں؟

https://p.dw.com/p/4JkMY
بدقسمتی سے پاکستان میں کانوں کی بیماریوں کے شکار مریضوں کی درست تعداد کے بارے میں کوئی حتمی معلومات میسر نہیںتصویر: picture-alliance / united-archives/mcphoto

لاہور کے نواحی علاقے شاہدرہ میں ایک چھوٹی سی ماربل فیکٹری تھی، جس میں دس مزدور کام کیا کرتے تھے۔ وہ پتھر کی سلوں کو کاٹنے کے لیے بجلی پر چلنے والا مضبوط لوہے کا کٹر استعمال کر رہے تھے۔ اس کٹر کے چلنے سے گھن گرج والا بہت اونچا شور پیدا ہوتا تھا اور وہ مزدور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے صبح سے شام تک اسی پر شور ماحول میں کام کرنے پر مجبور تھے۔ ایک دن لاہور کے کچھ ڈاکٹر تحقیق کی غرض سے وہاں پہنچے۔ انتظامیہ کی اجازت سے انہوں نے ان مزدوروں کا معائنہ کیا، تو وہ یہ جان کر ششدر رہ گئے کہ یہ سارے مزدور اپنی قوت سماعت کا بڑا حصہ کھو چکے تھے۔

Videostills | ConnectHear app
 کانوں کے امراض پر قابو پانے کے لیے بیماری کی جلد تشخیص اور اچھے علاج کی بہت اہمیت ہےتصویر: DW

قوت سماعت کیسے متاثر ہوتی ہے؟

ڈاکٹر ندیم مختار کانوں کے امراض کے ماہر ہیں۔ بائیس سال پہلے وہ برطانیہ سے پاکستان آئے اور کانوں کے مریضوں کے علاج کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ ڈاکٹر ندیم نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ بچے پیدائشی طور پر سننے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کے بقول پیدائش کے فورا بعد اگر کسی بچے کا وزن بہت کم ہو، یا اسے انفیکشن ہو جائے، یا اس میں آکسیجن کی کمی ہو، یا اسے طویل یرقان کا سامنا کرنا پڑے اور یا طویل عرصہ آئی سی یو میں گزارنا پڑے تو اس سے بھی قوت سماعت متاثر ہو سکتی ہے، ''بچوں کی عمر ایسے مسائل کے حل میں بہت اہم ہوتی ہے اگر بچوں کے پیدا ہونے کے بعد ان کی سکریننگ ہو جائے اور مرض کی فوری تشخیص کے بعد ان کا حل کرنا بہت آسان ہوتا ہے. جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ان امراض کا علاج مشکل ہوتا جاتا ہے۔‘‘

سکرینگ کی اہمیت

یاد رہے امریکہ اور یورپ سمیت کئی ملکوں میں ایسے قوانین موجود ہیں، جن کی رو سے نوزائیدہ بچوں کی سکرینگ کروانا والدین کے لیے لازمی ہوتا ہے۔ اس طرح بیماریوں کا ابتدا میں ہی پتہ چل جاتا ہے اور علاج ممکن ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس طرح کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ بعض بزرگ خواتین کو یہ کہتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے کہ ان کے خاندان میں فلاں بچے نے چار سال کی عمر میں بولنا شروع کیا تھا اس لیے اگر بچہ نہیں بولتا تو اسے ڈاکٹر کو دکھانے کی بجائے انتظار کرنا چاہیے۔ دیہات میں آج بھی جب بعض لوگوں کے کان کا پردہ پھٹ جائے اور کان بہنے لگیں (تو اس سے چالیس فی صد قوت سماعت ضائع ہو جاتی ہے) لیکن لوگ معاشرے کے ڈر سے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔ بعض علاقوں میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کانوں کے شدید امراض کے علاج کے لیے آج بھی بہت سے لوگ گھریلو ٹوٹکوں اور عطائیوں کے پاس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

کزن میرج بھی ایک وجہ

ڈاکٹر افضال عالم بھی کانوں کے امراض کے معالج ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سماعت کے مسائل کزن میرجز کی وجہ سے بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کے بقول بول نہ سکنے والے بچوں کا علاج اس لیے بھی ضروری ہے کہ جو بچے سن نہیں سکتے وہ بول بھی نہیں سکتے، ''جب ہم بولتے ہیں تو ہماری آواز کو کان سن کر دماغ کو سگنل بھیجتے ہیں وہ پھر اس کے جواب کا سگنل منہ تک پہنچاتا ہے۔ اگر آواز دماغ تک نہیں آئی تو پھر جواب میں وہاں سے نہیں آتا۔‘‘

اچھے علاج کی اہمیت

 کانوں کے امراض پر قابو پانے کے لیے بیماری کی جلد تشخیص، عوامی آگاہی، احتیاط اور اچھے علاج کی بہت اہمیت ہے۔ ڈاکٹر ندیم مختار کے بقول حکومت سماعت سے محروم بچوں کے سکولوں میں ایک بچے پر سالانہ بیس لاکھ روپے خرچ کر رہی ہے لیکن اگر حکومت پندرہ لاکھ روپوں سے بچپن میں ہی ایسے بچوں  کا علاج کروا دے تو وہ نارمل بچوں کی طرح معاشرے پر بوجھ بنے بغیر زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکتے ہیں، ''ہلکی شدت والے کان کے مریضوں کو تو ادویات سے افاقہ ہو جاتا ہے، زیادہ شدید مریضوں کو آپریشن کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، اور نوے فی صد سے زائد قوت سماعت کھو دینے والے مریضوں کا آپریشن کرکے ان کے کانوں میں ایسے آلات لگا دیے جاتے ہیں، جس سے وہ سن سکتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر ندیم وہی ڈاکٹر ہیں، جنہوں نے سولہ اگست سن دو ہزار میں پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن کرکے ایک بہرے بچے کی سماعت کو بحال کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ ڈاکٹر ندیم کانوں کے مریضوں کی مدد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ایئر فاؤنڈیشن کے بانیوں میں سے ہیں اور آج کل یورپی ملک آسٹریا کی مدد سے پاکستان میں سماعت سے محروم افراد کی مدد کے ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔

عوامی آگاہی

سب سٹائن ہالر پاکستان میں اس منصوبے کے سربراہ ہیں، جو آسٹریا کے تعاون سے پاکستان میں سماعت سے محروم لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ مریضوں کے علاج، ڈاکٹروں کی تربیت کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ وہ نوزائیدہ بچوں میں کانوں کے امراض کی جلد تشخیص کے لیے بہاولپور، سکھر اور لاہور کے ہسپتالوں میں بچوں کی سکرینگ کا ایک پائلٹ پروگرام بھی شروع کرنے جا رہے ہیں۔

عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ تو قوت سماعت میں کمی آ ہی جاتی ہے لیکن تیز آواز میں مسلسل میوزک سننے والی نوجوان نسل، ٹریفک کے شور کے قریب آباد لوگ اور گھن گرج والی فیکٹریوں میں مسلسل کام کرنے والے مزدوروں کی قوت سماعت جن شدید خطرات سے دوچار ہے اس کا اندازہ بہت کم لوگوں کو ہے۔

اعداد و شمار میسر نہیں

بدقسمتی سے پاکستان میں کانوں کی بیماریوں کے شکار مریضوں کی درست تعداد کے بارے میں کوئی حتمی معلومات میسر نہیں۔ یہاں اس حوالے سے کبھی کوئی جامع سروے نہیں کیا گیا۔ تاہم ہیئرنگ ہیلتھ کیئر الائنس پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں کانوں کی مختلف بیماریوں کے شکار لوگوں کی تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ہر چالیس مریضوں میں سے صرف ایک کو علاج کی مناسب طبی سہولتیں میسر ہیں۔ اس صورتحال کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان یہ امراض غریب علاقوں میں زیادہ ہیں اور غریب لوگ اس کے علاج کی استطاعت نہیں رکھتے۔

سماعت کے لیے بہتر 

عالمی ادارہ صحت کے مطابق سماعت کے لیے بہتر ہے کہ ستر ڈیسی بل یا اس سے کم شدت والی آوازوں کے ماحول میں رہا جائے۔ بعض ڈاکٹر ساٹھ سے پچاسی ڈیسی بل والی گفتگو کو بھی برا نہیں سمجھتے۔ یاد رہے انسانی سرگوشی تیس ڈیسی بل کی شدت رکھتی ہے جبکہ گولی کی آواز ایک سو چالیس ڈیسی بل اور پچاس فٹ دور سے گزرنے والی ٹریفک ستر سے اسی ڈیسی بل کی حامل ہوتی ہے۔ جبکہ ٹرین کے ہارن کی آواز ایک سو دس ڈیسی بل کے قریب ہوتی ہے۔

سماعت سے محروم پاکستانی یوٹیوبر