1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ڈیٹنگ 'مہنگی‘ پڑنے لگی

27 جولائی 2024

پاکستان میں ڈیٹنگ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے کچھ ڈیٹنگ ایپس پر پابندی عائد کرنے کے بعد سے ڈیٹنگ کے شوقین لوگوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ اس کی وجہ سے پاکستان میں ڈیٹنگ 'مہنگی‘ بھی ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4imyj
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

کسی کو تلاش کرنا، پھر اس سے بات کرنا، ملنا ملانا، مستقبل کے خواب بُننا اور اس سب کی خبر کسی کو نہ ہونے دینا انتہائی مشکل ہے، یعنی ڈیٹنگ آسان نہیں۔ سونے پر سہاگہ ستمبر 2020ء میں حکومت نے پانچ ڈیٹنگ ایپس پر پابندی لگا دی تھی۔ ایسے میں لوگوں کا ایک دوسرے تک ڈیٹنگ کے مقصد سے رسائی حاصل کرنا آسان نہیں رہا ہے۔ اس کے باوجود ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں ڈیٹنگ کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے لیکن یہ سستا نہیں ہے۔ 

پاکستان میں ڈیٹنگ کرنا کئی معنوں میں مہنگا پڑ سکتا ہے۔ پکڑے جائیں تو مصیبت، نہ پکڑے جائیں تو مصیبت۔ پکڑے جانے کی صورت میں جوتے، تھپڑ اور جانے کیا کیا پڑتا ہے۔ فون استعمال کرنے اور باہر آنے جانے پر پابندی لگ جاتی ہے۔ کچھ کیسز میں کسی بھی کزن کو پکڑ کر نکاح پڑھوا دیا جاتا ہے۔ 

ایسا ایک مہنگا منظر ہم نے چند سال پہلے ایک فرائیڈ چکن کے ریستوران میں دیکھا۔ ہم وہاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ فرائیڈ چکن کھا رہے تھے۔ ہم سے کچھ دور ایک میز کے گرد ایک لڑکا اور لڑکی بیٹھے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر میں ایک موٹر سائیکل پر ایک خاتون کسی لڑکے کے ساتھ آئیں۔ خاتون نے لڑکی کو دبوچا اور ان کے ساتھ آیا ہوا لڑکا اس لڑکے کو مارنے لگا۔ ایسے ہی مارتے مارتے وہ انہیں ریستوران سے باہر لے گئے۔ لڑکا تو بھاگ گیا البتہ لڑکی کو وہ دونوں موٹر سائیکل پر بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ 

غالباً ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے نوجوان ایسی جگہوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں ان کے خاندان والوں یا جاننے والوں کا آنا جانا نہ ہو۔ وہ جگہیں انہیں پھر مالی لحاظ سے ان پر بھاری پڑتی ہیں اور وہاں مہینے میں تین سے چار بار جانا ان کی جیب کو اچھا خاصا ہلکا کر دیتا ہے۔  

گھر میں بجلی کا بِل زیادہ آئے تو بجلی کا استعمال کم کر دیا جاتا ہے لیکن ڈیٹنگ میں ایسے نہیں کیا جا سکتا۔ جو چائے کھوکھے پر سو روپے کی ملتی ہے وہ کسی فینسی کیفے میں پانچ سو روپے سے چھ سو روپے تک ملتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی ڈیٹ کو ملاقات کے لیے کسی فینسی کیفے کا پتہ ہی بتایا جاتا ہے۔ وہاں چائے یا کافی کے ساتھ کسی اچھے سے کیک کا سلائس بھی منگوایا جاتا۔ آخر میں ڈیٹ کو متاثر کرنے کے لیے پورے بِل کی ٹیکس سمیت ہنسی خوشی ادائیگی بھی کی جاتی ہے۔ اب چاہے بِل دیکھ کر پیٹ میں بَل پڑ رہے ہوں لیکن چہرے پر بے فکری کا تاثر جمائے رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ نوجوان اپنی ڈیٹ کو کسی چائے کے کھوکھے یا کسی سستے ریستوران میں مدعو کرنا معیوب تصور کرتے ہیں۔ البتہ گاڑی دستیاب ہو اور خود کو برگر تصور کرتے ہوئے عام پاکستانی کی زندگی کا ایڈونچر کرنا ہو تو ایسی کسی جگہ کے باہر رک کر ایڈونچر سے بھرپور مگر سستی ڈیٹ منائی جا سکتی ہے۔ یہ سارا کھیل سوشل کلاس کا ہے۔ ایک کلاس کے لیے وہاں جانا شرمندگی کا باعث ہے تو ایک کلاس کے لیے وہاں جانا فَن ڈیٹ ہے۔ 

یہ کسی بھی ڈیٹ کا بظاہر نظر آنے والا خرچ ہے۔ اس میں پکڑے جانے کا خوف، اس صورت میں ہونے والی شرمندگی، مار کٹائی، پابندیاں اور زبردستی کی شادی کے علاوہ ڈیٹ پر جانے کے لیے پیٹرول کا خرچ یا رکشے اور ٹیکسی کا کرایہ بھی شامل کر لیا جائے تو پورا معاملہ کافی مہنگا پڑ جاتا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں نوجوانوں کو بجلی کے بِل سے زیادہ ڈیٹنگ کا بِل چبھ رہا ہے لیکن کُول بننے کے چکر میں اسے ہنسی خوشی برداشت کر رہے ہیں۔ جب بات ان کی برداشت سے باہر ہو جائے تو ڈیٹس کے درمیان وقفے لانا شروع کر دیتے ہیں۔ 

ڈیٹنگ کبھی کبھار بھاری بھی پڑ جاتی ہے۔ پچھلے ماہ بھارت کے دارالحکومت دہلی میں ایک آدمی کو اپنی ٹنڈر ڈیٹ سوا لاکھ بھارتی روپوں میں پڑی۔ ان کی ڈیٹ اچانک گھر میں کسی ایمرجنسی کا کہہ کر ریستوران سے چلی گئیں۔ جب انہوں نے بِل منگوایا تو وہ سوا لاکھ بھارتی روپوں سے کچھ اوپر کا تھا۔ انہوں نے بحث کی تو ریستوران والے ان پر بِل کی ادائیگی کے لیے دباؤ ڈالنے لگے۔ بِل ادا کرنے کے بعد وہ سیدھا پولیس اسٹیشن گئے اور رپورٹ درج کروائی۔ پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ ریستوران ایک خاتون کی مدد سے مردوں سے ڈیٹ کے بِل کے نام پر بھاری بھر کم رقوم وصول کر رہا تھا۔

اب حکومت سے یہ درخواست تو نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہر شہر گاؤں اور قصبے میں سستے، معیاری اور محفوظ ریستوران اور کیفے کھولے جہاں نوجوان بے فکری کے ساتھ جیب پر ہلکی پڑنے والی ڈیٹنگ کر سکیں۔ البتہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ خدارا ملک بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا جال بچھائیں تاکہ جس نے جہاں جس بھی مقصد سے جانا ہو کم پیسوں میں پہنچ جائے۔ ساتھ ریستورانوں اور کیفوں پر پانی اور چائے کی قیمت ریگولیٹ کروا دیں تو نوجوان انہیں چھپ چھپ کر دعائیں دیں گے۔

نوجوانوں سے بھی گزارش ہے کہ اپنے اور اپنے والدین کے حال پر رحم کھائیں۔ اپنے اور ان کے محنت سے کمائے ہوئے پیسے کُول نظر آنے کے چکر میں مہنگے ریستورانوں اور کیفے پر خرچ نہ کریں۔ بہت سے ریستوران مناسب ڈیلز دے رہے ہوتے ہیں۔ کھانے کے لیے ان کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ مشروبات کسی اسٹور سے خرید کر قریبی پارک میں چہل قدمی کے لیے جایا جا سکتا ہے۔ ہر ڈیٹ پر کھانا پینا بھی لازمی نہیں ہے۔ کبھی بغیر پیسے یا کم پیسے خرچ کیے بھی ڈیٹ کی جا سکتی ہے۔ کچھ اس طرف بھی دھیان دیں۔ جب ساری زندگی دو جمع دو کرتے ہوئے گزارنی ہے تو ابھی سے حقیقت کو قبول کیوں نہ کیا جائے؟ ابھی سے اپنی ڈیٹ کو زندگی کی حقیقتیں دکھائیں۔ وہ ساتھ چلے تو بہترین ورنہ وقت ضائع نہ کریں اور اگلے کی طرف بڑھ جائیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔