1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ٹیکس چوری کیسے روکی جا سکتی ہے؟

16 نومبر 2018

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں سب سے کم شہری ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت بھی یہ پرانا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے۔ جانیے کہ عمران خان حکومت کی منصوبہ بندی کیا ہے اور وہ کیا کوششیں کر رہی ہے؟

https://p.dw.com/p/38PR8
Pakistan Traders Streik
تصویر: DW/T. Shahzad

محمد حماد اظہر کا شمار نئی پاکستانی حکومت کے کم عمر ترین وزیروں میں ہوتا ہے۔ اس وزیر مملکت برائے محصولات کو بھی اسی مسئلے کا سامنا ہے، جو ان سے پہلے عہدیداروں کو تھا کہ آخر کس  طرح پاکستانی شہریوں کو ٹیکس دینے کی طرف مائل کیا جائے؟

توقع کے مطابق رواں ماہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات میں بھی یہی معاملہ سرفہرست ہوگا کہ کس طرح پاکستان میں ٹیکس چوری کو روکا اور ملک سے مالی بدعنوانی کو ختم کیا جائے۔ سینتیس سالہ محمد حماد اظہر کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے طویل المدتی اصلاحات متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ لیکن سب سے پہلے وہ ایسی جدید ٹیکنالوجی اور ڈیٹا  حاصل کر رہے ہیں، جس سے ٹیکس چوری کرنے والوں کی نشاندہی ہو سکے۔  پاکستان کی کل آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ اپنی آمدنی کے گوشوارے جمع کرواتا ہے اور حماد اظہر کے مطابق اس میدان میں بہت کچھ کیا جانا ضروری ہے۔

Pakistan, Islamabad: Muhammad Hammad Azhar
محمد حماد اظہر کا شمار نئی پاکستانی حکومت کے کم عمر ترین وزیروں میں ہوتا ہےتصویر: Reuters/F. Mahmood

تجزیہ کاروں کے مطابق ٹیکس کی کم ادائیگی کی وجہ سے ہی اس ملک میں اسکولوں سے لے کر ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی کمی ہے۔ اگست میں اقتدار سنبھالنے والے وزیراعظم عمران خان نے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) میں اصلاحات متعارف کروانے کا اعلان کیا تھا تاکہ ٹیکس کولیکشن کو دوگنا کیا جا سکے۔ انہوں نے پہلے قدم کے طور پر ’کرپشن کے حوالے سے مشہور‘ اس ادارے کے سربراہ کو تبدیل کر دیا تھا۔

حالیہ چند مہینوں میں ایف بی آر نے ملک کے 350 امیر ترین افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس مہم کے دوران ان لوگوں کو جوابدہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو جاگیردار ہیں، قیمتی برانڈ کی کاروں کے مالک ہیں، بڑے کاروباری معاہدے کرتے ہیں، کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز کرتے ہیں لیکن انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتے۔

پاکستان میں ماضی کی حکومتیں بھی ایسے ہی اعلانات کر چکی ہیں لیکن اس ملک کے طاقتور اور امیر طبقے سے ٹیکس وصولی کے منصوبے دھرے کے دھرے ہی رہ جاتے ہیں۔ پاکستان پولیٹیکل اکانومی نامی کتاب کے مصنف اور لندن میں سٹی گروپ کے شعبہ سرمایہ کاری سے وابستہ یوسف نذر اس حوالے سے کہتے ہیں، ’’ہمارے جیسے ملک میں ٹیکس نظام میں اصلاحات کرنا ایک بہت ہی بڑا مسئلہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ میں طاقتور افراد کے اپنے مفادات ہیں، بڑے بزنس مین اور بڑے بڑے جاگیردار ایسی اصلاحات کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں۔‘‘

محمد حماد اظہر کے مطابق اب حکومت نے ’گاجر اور چھڑی‘ کی پالیسی اپنائی ہے۔ ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائیاں تیز تر کر دی گئی ہیں اور ساتھ ہی ’سنگل ونڈو آپریشن‘ کے تحت ٹیکس ادائیگی کا عمل بھی آسان بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ہر ایسے شخص کے حوالے سے معلومات ایک جگہ جمع کی جا رہی ہیں۔ حماد اظہر کے مطابق ٹیکس چوری کرنے والوں کی نشاندہی کاروں کی خریداری، بینک ٹرانزیکشنز اور بیرون ملک سفروں کی معلومات کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تمام ڈیٹا ایک جگہ لانے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔

سیلز ٹیکس

پاکستان کی سابق حکومت نے جی ڈی پی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ٹیکس کو دس عشاریہ ایک فیصد سے بڑھا کر تیرہ فیصد کر دیا تھا لیکن یہ ابھی بھی اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے رکن ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ عام طور پر ایسا ٹیکس چونتیس فیصد تک عائد کیا جاتا ہے۔ ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ کے مطابق نئی حکومت اصلاحات لانے کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہے لیکن ان کی جماعت میں سبھی اس کی حمایت نہیں کرتے۔ ان کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سخت اقدامات اٹھانے کے نتیجے میں عمران خان کی اپنی ہی جماعت میں ان کی حمایت کم ہو سکتی ہے۔ ذیشان کا کہنا تھا کہ اس وقت صرف باتوں کی ہی نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے بنیادی فیصلہ گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا، جب خان کابینہ نے  ٹیکس پالیسی کو ریونیو کولیکشن سے الگ کر دیا تھا۔ اس طرح ایف بی آر سے پالیسی سازی کی طاقت چھین لی گئی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق سب سے اہم کام پاکستان کی ’بلیک اکانومی‘ پر کنٹرول کرنا ہے۔ بڑی تعداد میں جائیدادیں، اشیاء اور سروسز کیش کے بدلے فروخت کی جاتی ہیں۔ اندازوں کے مطابق اس طرح گمنامی میں 310 بلین ڈالر کا کاروبار کیا جا رہا ہے۔

حماد اظہر کہتے ہیں کہ پاکستان میں ’کیش اکانومی کی حوصلہ شکنی‘ ضروری ہے، ’’ یہ تمام پیشہ کیش کی صورت میں ٹیبل کے نیچے سے آ جا رہا ہے اور اس عمل کو مشکل بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘

 ا ا / ک م