1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں نیٹو سپلائی ٹرکوں کے ڈرائیوروں کے خدشات

12 جنوری 2012

افغانستان میں نیٹو دستے زمینی راستے سے رسد کی فراہمی کے لیے زیادہ تر پاکستان پر انحصار کرتے ہیں لیکن نیٹو سپلائی ٹرک چلانے والے پاکستانی ڈرائیوروں کو ہر لمحے موت کا خوف رہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/13iR2
تصویر: AP

پاکستان سے نیٹو کے یہ سپلائی ٹرک لے کر افغانستان کے اندر تک جانے والے اکثر پاکستانی ڈرائیوروں کا تعلق پاکستانی قبائلی علاقوں سے ہوتا ہے۔ انہیں اپنے کام کے بہت خطرناک ہونے کا ہر وقت احساس رہتا ہے۔ سفر کے دوران وہ جب کبھی بھی سستانے یا شب بسری کے لیے رکتے ہیں، تو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں ان میں سے چند ایک ایسے گیت گانے لگتے ہیں جن میں گھر اور اپنے عزیزوں سے دوری کا ذکر ہوتا ہے۔

ایسے بہت سے ڈرائیور گزشتہ برس نومبر کے آخر سے کراچی سے لے کر افغان سرحد تک مختلف علاقوں میں اس وجہ سے رکے رہنے پر مجبور ہیں کہ پاکستانی حکومت نیٹو کے ایک فضائی حملے میں اپنے چوبیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان کے راستے افغانستان میں نیٹو دستوں کے لیے سپلائی روٹ معطل کر چکی ہے۔ پاکستان سے سپلائی لے کر افغانستان جانے والے ٹرکوں اور آئل ٹینکروں کو اکثر عسکریت پسندوں کے خونریز حملوں کا سامنا رہتا ہے۔

طالبان کی طرف سے ایسے حملے زیادہ تر درہء خیبر کے علاقے میں کیے جاتے ہیں۔ پچھلے سال ایسے حملوں میں دو سو کے قریب آئل ٹینکر تباہ کر دیے گئے تھے اور سینکڑوں دوسری بڑی بڑی مال بردار گاڑیوں کو شدت پسندوں نے آگ لگا دی تھی۔ ایسے ٹرک یا ٹرالر چلانے والے ڈرائیوروں کو یہ احساس رہتا ہے کہ ان کا پیشہ بہت خطرناک ہو چکا ہے لیکن ان میں سے اکثر کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے کیونکہ انہیں روزگار کے حوالے سے شدید نوعیت کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

Pakistan Afghanistan Angriff auf NATO Konvoi
عسکریت پسند سپلائی کے ان ٹرکوں کو تباہ کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کے راستے نیٹو کا سامان رسد افغانستان لے کر جانے والے اور یہ سپلائی روٹ کھولے جانے کے منتظر ایسے سینکڑوں پاکستانی ڈرائیوروں میں سے ایک اٹھارہ سالہ نعمت خان بھی ہے۔ نعمت خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’ہمارا کام خطرناک ہے۔ لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔‘

نعمت خان نے کہا، ’اب کوئی بھی شخص مجھے مزید ادھار دینے پر تیار نہیں ہے۔ نیٹو کا سامان رسد لے کر افغانستان جانے سے مجھے جو رقم ملتی ہے وہ میری اور میرے خاندان کی واحد آمدنی ہے۔‘ نعمت خان نے بتایا کہ کراچی سے افغان دارالحکومت کابل کے نزدیک بگرام کے ہوائی اڈے تک ٹرک لے کر جانا اور پھر وہاں سے واپس کراچی پہنچنا اتنا لمبا سفر ہے کہ اس میں تقریباﹰ ایک مہینہ لگ جاتا ہے۔ اس نوجوان ڈرائیور کے بقول کراچی سے بگرام تک کا ایک چکر لگانے سے ایک عام ڈرائیور کو اوسطاﹰ ایک ہزار امریکی ڈالر تک کی آمدنی ہوتی ہے۔

ایسے ہی ایک اور ڈرائیور خورشید خان کی عمر بیس برس ہے اور وہ ایک آئل ٹینکر چلاتا ہے۔ خورشید خان نے کہا کہ ہر جگہ ہی بہت پُرخطر نہیں ہوتی۔ اتنے طویل راستے میں کون کون سی جگہ عسکریت پسندوں کے ممکنہ حملوں کے حوالے سے زیادہ خطرناک ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی ڈرائیور کس وقت کہاں سے گزر رہا ہے۔

Angriff Nato-Hubschrauber in Pakistan
پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہےتصویر: dapd

ان ڈرائیوروں میں سے کئی نظریاتی طور پر ان پاکستان طالبان کے ہم خیال بھی ہوتے ہیں جن کے حملوں کا خود ان کو بھی سامنا بھی رہتا ہے۔ ایسے چند ایک ڈرائیوروں نے یہ کہا کہ نیٹو کے دستوں کے لیے ٹرک چلانا ان کی رائے میں کسی حد تک ان کے عقیدے کے خلاف بھی جاتا ہے لیکن وہ ایسا کرنے پر اس لیے مجبور ہے کہ زندہ رہنے کے لیے ان کے پاس آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان قبائلی علاقے میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے ایک سر گرم کارکن شبیر احمد کے بقول اکثر ڈرائیوروں کا تعلق پاکستان یا افغانستان کے سرحدی قبائلی علاقوں سے ہوتا ہے اور وہ کراچی سے بگرام تک نیٹو فوجیوں کے لیے اشیائے ضرورت کی مال برداری کا خطرناک کام اس لیے کرتے ہیں کہ دوسری صورت میں انہیں کوئی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے فاقوں کا خطرہ رہتا ہے۔

رپورٹ: مدثر شاہ / عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں