1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں نیا ہائبرڈ سسٹم لانے کی تیاریاں؟

8 ستمبر 2023

تجزیہ کاروں کے بقول اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی بدستور مقبولیت سے خائف ہے اوراس کا توڑ تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ وہ اپنی مرضی کا ایسا سسٹم لائے، جو سب حکومتی لوازمات تو پورے کرے لیکن سیاسی طور پر کمزور ہو۔

https://p.dw.com/p/4W6JR
Pakistan Karatschi Premierminister Mian Shahbaz
تصویر: CM House

پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کی اصل تاریخ تو فی الحال کسی کو معلوم نہیں تاہم سیاسی پنڈت ملکی اسٹیبلشمنٹ کے داؤ پیچ دیکھ کر یہ اندازے لگانے کی کوششوں میں ہیں کہ آخر وہ کسے اور کب تک برسر اقتدار لانا چاہتی ہے؟

 الیکشن کے انعقاد  کے حوالے سے مبہم صورتحال کا سیدھا سا یہی مطلب لیا جا رہا ہے کہ یہ تاخیرعمران خان کی مقبولیت کم کرنے کے لیے مزید وقت حاصل کرنے کا ایک حربہ ہے۔ نادرا میں چئیرمین کی عہدے پر حاضر سروس فوجی افسر کی تعیناتی کی گنجائش نکالنے کے عمل کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

Pakistan | Imran Khan | ehemaliger Premierminister
درجنوں مقدمات کا سامنا کرنے اور جیل میں قید ہونے کے باوجود عمران خان کی مقبولیت نے اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کر رکھا ہےتصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance

پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پے در پے ہونے والی کارروائیاں بھی انہیں انتخابی عمل سے آؤٹ کروانے کے ایجنڈے کا حصہ قرار دی جا رہی ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی ترجیح ہائبرڈ سسٹم؟

اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار حبیب اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں کچھ ایسی کوششیں ہو رہی ہیں جن کا نتیجہ  ہائبرڈ حکومت کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ ان کے بقول، ''ملکی سیاسی منظرنامے پر ایسے مظاہر دیکھنے میں آ رہے ہیں، جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ  اسٹیبلشمنٹ کی حامی، ایک نیم سیاسی اور نیم جمہوری  حکومت کو برسر اقتدار لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔‘‘

تاہم تجزیہ کار نوید چوہدری اس رائے سے اتفاق نہیں رکھتے۔  ان کا ماننا ہے کہ اس مرتبہ جو بھی حکومت بر سر اقتدار آئے گی، اس پر اسٹیبلشمنٹ کے اثرات اس طرح کے نہیں ہوں گے جیسے دو ہزار اٹھارہ میں بر سر اقتدار لائی جانے والی عمران خان کی حکومت پر تھے۔

نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس دور میں عمران خان محض ایک فرنٹ مین تھے اور معیشت، خارجہ پالیسی اور میڈیا مینجمنٹ سمیت بہت سےکام ان کو لانے والے خود کر رہے تھے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ان دنوں وزیراعظم عمران خان خود بتایا کرتے تھے کہ انہیں ڈالر کے اوپر جانے کا علم ٹی وی سے ہوا اور یہ کہ انہیں صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کے بارے میں اطلاع بھی میڈیا کے ذریعے ہی ملی تھی۔‘‘

Pakistan | Sheikh Rashid Ahmad
بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نئی سیاسی صف بندی میں اپنے کچھ پرانے اتحادیوں کی قربانی دینے کے لیے بھی راضی ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

نوید چوہدری کے بقول ابھینندن کی گرفتاری کے بعد ہونے والی قومی مشاورت میں بھی عمران خان کو  نہیں بلوایا گیا اور صنعت کاروں سے اہم ملاقاتیں بھی جنرل باجوہ ہی کیا کرتے تھے۔ ''میرا خیال ہے کہ آ ئندہ برسر اقتدار آنے والی حکومت کافی حد تک اونرشپ لے گی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کی کوشش کرے گی۔‘‘

صحافی اور کالم نگار عامر خاکوانی کو بھی یقین ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کی حکومت لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اور ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ مسلم لیگ نون کو لایا جا رہا ہے۔'' شریف فیملی نواز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کی خواہش مند ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی پسند شہباز شریف ہیں۔ ‘‘

 کیا پاکستان میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں؟

عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ پاکستان پرامریکہ، یورپی یونین اور آئی ایم ایف سمیت بہت سے بین الاقوامی اداروں کی طرف سے انتخابات کرانے کے لیے دباؤ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بار کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''فی الحال عدالتوں کا موڈ بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ نگرانوں سے حالات سنبھالے نہیں جا رہے۔ اس لئے قوی امکان تو یہی ہے کہ پاکستان میں الیکشن ضرور ہوں گے اور الیکشن کو غیر معینہ  یا طویل مدت کے لئے ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

تجزیہ کار حبیب اکرم کے مطابق اگر ہم سیاسی جماعتوں کے موقف اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو دیکھیں تو اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن اگلے سال جنوری کے آس پاس ہوں گے۔

کیا آئندہ انتخابات شفاف اور منصفانہ ہوں گے؟

 تجزیہ کار نوید چوہدری انتخابات میں دھاندلی عموماﹰ تین طرح کی ہوتی ہے جس میں پری پول یعنی الیکشن سے پہلے دھاندلی، الیکشن والے دن ہونے والی دھاندلی اور پوسٹ پول یعنی انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد دھاندلی شامل ہے۔

Pakistan | Anwaar ul Haq Kakar wird neuer Interims-Premierminister
موجودہ نگران سیٹ اپ بھی عوام میں زیادہ مقبول نہیں ہو سکاتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

آخری قسم کی دھاندلی میں انتخابی نتائج تبدیل کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان کو لانے کے لیے یہ تینوں طریقے استعمال کیے گئے، وفاداریاں بدلوائی گئیں، پولنگ ایجنٹ باہر نکال کر ٹھپے لگائے گئے۔‘‘

حبیب اکرم کے مطابق پاکستان کا ماضی گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کی حکومت بنواتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کام کے لئے دستیاب عناصر اکٹھے نہیں ہو پا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ''ماضی میں جب حکومت ختم کی جاتی تھی تو عوام تو وہ اپنے اعمال کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو چکی ہوتی تھی۔ عوامی امنگیں اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ ہم آہنگ ہوتی تھیں۔ عدلیہ بھی ان حالات میں مدد گار ہوتی تھی اب ایسا کچھ بالکل بھی نہیں ہے۔ اب جھرلو پھیرنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘

عامر خاکوانی کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات کے دس فی صد بھی منصفانہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ''جب آپ ملک کے مقبول ترین لیڈر کو جیل میں ڈال دیں۔ عدالتوں کی ضمانتوں کو بھی نہ مانیں، الیکشن امیدوار توڑ لیں اور اپنے مخصوص انتخابی نشان کو بھی نہ لینے دیں تو کہاں کی شفافیت اور کون کرے گا ایسے انتخابنات کی ساکھ پر اعتبار۔‘‘

 کیا پاکستان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت آ سکتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں زیادہ تر تجزیہ کاروں کا یہی خیال ہے کہ پاکستان میں کوئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے خیال میں کامیاب سیاسی جماعت خواہ کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہو اسے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ہی چلنا پڑھتا ہے۔

حبیب اکرم کے مطابق پاکستان میں کوئی حکومت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی اور کوئی اسٹیبلشمنٹ اینٹی جمہوریت ہونے کی عیاشی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔انہوں نے کہا، ’’بحرانوں میں گھرے ملک کی معاشی حالت کو سنوارنے کے لیے سب کو سب کی ضرورت رہے گی۔‘‘

عامر خاکوانی کا کہنا ہے کہ جو جماعتیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن ان کے خیال میں عمران خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ تو نہیں مگر وہ آئینی بالا دستی پر اصرار کر رہے ہیں۔

میری پارٹی کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن جاری ہے، عمران خان