پاکستان میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی ریت
24 مئی 2023کچھ حلقوں میں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کرانے کے ذمہ دار کون ہیں اور آیا اس کی ساری ذمہ داری صرف غیر مرعی طاقتوں پر ڈالی جانی چاہیے یا اس میں سیاسی جماعتوں کا بھی حصہ ہے۔
کیا تحریک انصاف کو کالعدم کر دیا جائے گا؟
پی ٹی آئی میں بدلتی ہوئی وفاداریاں
پاکستان تحریک انصاف کے مطابق اس وقت اس جماعت کو ایک سخت کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ اس دوران کارکنان، اراکین پارلیمنٹ اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جاتا ہے یا حراست میں لیا جاتا ہے اور پھر جب وہ واپس آتے ہیں تو یا وہ پارٹی چھوڑ دیتے ہیں یا پھر سیاست سے ہی کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسا پی ٹی آئی کے صرف وہ رہنما نہیں کر رہے، جو ماضی میں دوسری سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں بلکہ تحریک انصاف کے کٹر حامی سمجھے جانے والے رہنما بھی سیاست میں دوبارہ قدم نہ رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی ہے، جنہوں نے منگل کو ہی سیاست کو خیر باد کہا ہے۔
ملزم پاکستانی سویلین مگر عدالتیں فوجی: اکثر سیاسی جماعتیں دانستہ چپ
سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کے ذمہ دار
پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان پیپلزپارٹی کو توڑ کر اس میں سے پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی، جب کہ نون لیگ کے ارکان کو توڑ کر پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کو تشکیل دیا گیا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سیاسی جماعت کے قائدین کا رویہ ہے جبکہ کچھ کے خیال میں یہ ٹوٹ پھوٹ بنیادی طور پر ملک کے مقتدر قوتوں کہ اشارے پر ہوتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما عابدہ چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو توڑنے میں اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سب کو پتہ ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس سارے اختیارات اور طاقت ہے، جو نہ صرف سیاسی جماعتوں کو بناتی ہے بلکہ توڑتی بھی ہے۔ جب تحریک انصاف کو تشکیل دیا گیا تو مختلف جماعتوں کے لوٹوں کو اس میں بھیج دیا گیا اور اب ان پر دباؤ ڈال کر پی ٹی آئی چھوڑنے کا کہا جا رہا ہے۔‘‘
عابدہ چودھری کے مطابق پاکستان میں سیاسی جماعتیں صرف کٹھ پتلیاں ہیں، ” اور کٹھ پتلیاں اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی خوشامد کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار ملتا ہے لیکن اختیار نہیں۔‘‘
عمران خان کو راحت، عبوری ضمانت میں توسیع
پاک سرزمین پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل رضا ہارون کا کہنا ہے کی ٹوٹ پھوٹ کے ذمہ دار سیاسی قائدین بھی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے آپ کو پارٹیوں سے بھی بڑا سمجھنے لگتے ہیں اور تمام جمہوری اقدار کو پامال کرنے لگتے ہیں پھر اس طرح کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوجاتی ہے۔‘‘
ٹوٹ پھوٹ کا موازنہ
گو کہ پاکستان میں کئی سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے لیکن کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل کچھ زیادہ ہی تیز ہے۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مشیر عبدالرحیم ظفر کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف بھی بہت سخت کریک ڈاون کیا گیا تھا لیکن پارٹی کے کارکنان اور رہنماؤں نے اتنی جلدی پارٹی کو خیرباد نہیں کہا تھا، جتنی تیزی سے پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور پھانسی کے کئی برسوں بعد تک رہنما اور کارکنان مزاحمت کرتے رہے۔ سندھ میں طالب المولیٰ، قائم علی شاہ اور این ڈی خان سمیت کئی رہنما ثابت قدم رہے۔ پنجاب میں راجہ انوراور بابائے سوشلزم شیخ رشید سمیت کئی رہنما بھی ڈٹے رہے۔ خیبرپختونخوا میں آفتاب شیرپاؤ کے گھرانے سمیت کئی رہنماؤں نے بزدلی نہیں دکھائی۔ بالکل اسی طرح بلوچستان میں عبداللہ گچکی اور طاہر خان سمیت کئی رہنماؤں نے اس پارٹی کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔‘‘
عبدالرحیم ظفر کے خیال میں ماضی میں سیاست نظریاتی بنیادوں پر ہوتی تھی لیکن کیونکہ اب سیاست نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہوتی اور جاسوس اداروں کا سیاست میں عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے اس لیے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا یہ عمل بھی تیز ہے۔
وفاداریاں اور جبر
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ملکی سطح پر سب سے زیادہ جبر کا سامنا پاکستان پیپلز پارٹی نے کیا لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں ایسا جبر ایم کیو ایم الطاف کے حصے میں آیا۔ ایم کیو ایم لندن کے ڈپٹی کنوینر شاہد رضا کا کہنا ہے ایم کیو ایم کے خلاف سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل سب سے زیادہ طویل اور سب سے زیادہ سخت رہا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے کارکنان پر تشدد کیا گیا۔ جیلوں میں بند کیا گیا۔ ان کے گھر والوں کو دھمکی دی گئی اور انہوں نے جب سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے سے منع کیا تو ان کی لاشوں کوپھینک دیا گیا۔‘‘
شاہد رضا کے مطابق ایم کیو ایم میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کا سلسلہ انیس سو بانوے سے شروع ہوا۔ پہلے حقیقی، پھر گوگا گروپ اور بعد میں ایم کیو ایم پی اور آخر میں پاک سرزمین پارٹی کو تشکیل دیا گیا۔‘‘
کیا اس عمل کو روکا جا سکتا ہے؟
رضا ہارون کا کہنا ہے کہ اس عمل کو روکنا اس وقت تک مشکل ہے جب تک سیاست میں متوسط اور نچلے طبقات سے لوگ نہیں آتے۔ لیکن شاہد رضا کا خیال ہے کہ یہ عمل اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک اسٹیبلشمنٹ یا پاکستان کی فوج کو آئینی حدود تک محدود نہ کر دیا جائے، ''سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اپنے تمام آئینی اختیارات کے باوجود اپنے سگے بھائی کو واپس نہیں لا سکتے جو اس بات کی واضح نشانی ہے کہ پاکستان میں سیاستدانوں کے پاس کتنا اختیار ہے۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار خالد بھٹی کا کہنا ہے کہ جب تک سیاست دان جی ایچ کیو اور سیاسی لوٹوں سے جان نہیں چھڑاتے، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔‘‘