1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جعلی ادویات: اربوں کا منافع، ہزارہا جانوں کا ضیاع

18 نومبر 2018

ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی جعلی ادویات سے ہر سال اربوں روپے کمائے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ جرم ہزارہا انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بھی بنتا ہے۔

https://p.dw.com/p/38SMG
Pakistan Gefälschte Drogen
تصویر: DW/I. Jabeen

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کے کاروبار کا سالانہ حجم دو سو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں جتنے بھی کاروباری شعبوں میں قانونی اور معیاری مصنوعات کی غیر قانونی اور غیر معیاری نقل تیار کر کے جتنا بھی منافع کمایا جاتا ہے، ان میں جعلی ادویات سے ہونے والا منافع سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر مجرمانہ منافع کی یہی ہوس لاکھوں انسانوں کی موت کی وجہ بھی بنتی ہے اور ایسی ہلاکتیں پاکستان میں بھی ہوتی ہیں۔

پاکستان میں معیاری ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے اور جعلی اور غیر معیاری ادویات کی روک تھام کا کام ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان یا ڈریپ نامی ادارہ کرتا ہے۔ لیکن بے تحاشا منافع کی خاطر مریضوں کی جانوں سے کھیلنے والے غیر قانونی دوا ساز اور دوا فروش آج بھی اتنے پاکستانیوں کی ناحق موت کی وجہ بنتے ہیں کہ یہ سالانہ تعداد درجنوں یا سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں بنتی ہے۔

حقیقت سے انکار

ڈرگ کنٹرول کے شعبے کے کئی اعلیٰ پاکستانی اہلکار تو سرے سے اس بات سے انکار بھی کر دیتے ہیں کہ پاکستان میں جعلی ادویات کا کاروبار بہت پھیلا ہوا ہے، ان کی وجہ سے مریض ہلاک بھی ہو جاتے ہیں اور کئی شہروں میں جعلی ادویات بنانے کی فیکٹریاں بھی قائم ہیں۔ ایسے اہلکاروں کے ان دعووں کی تردید کے لیے محض چند بڑے حقائق کی طرف اشارہ کرنا ہی کافی ہو گا:

سن 2012ء میں پاکستان کے دو شہروں میں نشے کے لیے کھانسی کا شربت پینے کے نتیجے میں ساٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ شربت تو کھانسی کے علاج کے لیے تھا مگر پینے والوں نے اسے نشے کے لیے بہت زیادہ مقدار میں پیا تھا اور کھانسی کے اس شربت میں ایک ایسا زہریلا مادہ بھی تھا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا اور جو مارفین سے بھی پانچ گنا زیادہ خطرناک تھا۔

Pakistan Medikamente
کئی جعلی ادویات تو ایسی ہوتی ہیں، جو مریضوں کی بیماری میں طوالت حتیٰ کہ ان کی موت تک کی وجہ بن جاتی ہیں۔تصویر: Getty Images/D. Berehulak

اس کے علاوہ کچھ عرصہ پہلے ہی پاکستان کی ایک ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے اعلیٰ حکام نے صوبہ پنجاب کے چیف ڈرگ کنٹرولر کو لکھا کہ 50 کے قریب دوا ساز اداروں کی بنائی ہوئی 91 اینٹی بائیوٹک ادویات غیر معیاری نکلی تھیں۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق اس خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ صوبائی محکمہ صحت نے تب تک اس بارے میں کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے تھے جو اسے فوری طور پر کرنا چاہییں تھے۔

اسی طرح صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں کوالٹی کنٹرول بورڈ نے چند روز قبل سترہ ایسے میڈیکل سٹوروں کے کیس ڈرگ کورٹس میں بھیج دینے کا فیصلہ کیا، جو غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ ادویات کی فروخت میں ملوث تھے۔

ڈرگ کنٹرول کی صورت حال

پاکستان میں دوا سازی کی صنعت کے غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک کی تعداد 191 ہے۔ ان میں سے صرف 20 فیصد ریاستوں کے پاس فارما انڈسٹری سے متعلق کوالٹی کنٹرول کا بہترین نظام موجود ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے، ’آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘۔ چند حلقے تو یہ دعوے بھی کرتے ہیں کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں کچھ ’رجسٹرڈ دوا ساز ادارے‘ ایسے بھی ہیں، جو فارماسیوٹیکل فیکٹریوں کے طور پر ’دو دو کمروں کے گھروں‘ میں کام کر رہے ہیں۔

اسلام آباد کے رہائشی اور ایک دوا ساز کمپنی کے مالک ت حسین نے، جو احتیاطاً اپنے ادارے کا نام اور اپنی مکمل شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''کچھ پرائیویٹ کمپنیاں بھی اور مقامی پروڈیوسرز بھی جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت میں ملوث ہیں۔ ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے آئے دن کے چھاپوں کے باوجود بڑی مقدار میں ایسی ادویات کھلے عام دستیاب ہیں۔ لیبارٹریوں کی قلت کے باعث جعلی ادویات کی بروقت جانچ پڑتال کا بھی فقدان ہے۔ ایسی ادویات بنانے والے کئی افراد ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کروڑوں کا منافع کما رہے ہیں۔ جو ڈاکٹر ایسا کرتے ہیں یا محض کسی خاص کمپنی کی تیار کردہ ادویات ہی مریضوں کے لیے نسخے میں لکھتے ہیں، انہیں بیش قیمت تحائف ملتے ہیں یا بیرون ملک دورے کرائے جاتے ہیں۔‘‘

Pakistan Mütter mit Babys
میں اگر صرف گائناکالوجی کی بات کروں، تو غیر معیاری ادویات زچہ اور بچہ دونوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں، ڈاکٹر فرحت ارشدتصویر: picture-alliance/Pacific Press/R. Sajid Hussain

ت حسین نے، جو قریب تین عشروں سے دوا سازی کی صنعت میں فعال ہیں، ڈوئچے ویلے کو مزید بتایا، ’’پاکستان میں ڈرگ ریگولیشن کی صورت حال کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے افراد اور سرکاری اور نجی ادارے اپنے فرائض اور پیشہ ورانہ ذمے داریاں پوری کرتے تو ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کئی جعلی ادویات تو ایسی ہوتی ہیں، جو مریضوں کی بیماری میں طوالت حتیٰ کہ ان کی موت تک کی وجہ بن جاتی ہیں۔ میں نے قریب تین دہائیوں میں یہی دیکھا ہے کہ اس ناجائز کاروبار میں دوا ساز، ڈاکٹر، ڈرگ کنٹرولر اور دوا فروش، ہر فرد واحد تو نہیں لیکن ہر شعبے کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔‘‘

صحت کے بجائے بیماری شدید تر

اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال کی گائناکالوجی کے شعبے کی سینیئر ڈاکٹر فرحت ارشد نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جعلی ادویات کے باعث کئی بار مریض صحت یاب ہونے کے بجائے مزید بیمار ہو جاتے ہیں۔ جعلی اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے مریض کے جسم میں انفیکشن پھیل جائے تو اس کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ میں اگر صرف گائناکالوجی کی بات کروں، تو غیر معیاری ادویات زچہ اور بچہ دونوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔ جعلی یا غیر معیاری ادویات کی فروخت پر تو کڑی سزا ہونی چاہیے تاکہ یہ جان لیوا رجحان کسی طرح ختم تو ہو۔‘‘

ڈاکٹر فرحت ارشد نے مزید بتایا، ''یہ صرف ہمارے ہی معاشرے کا المیہ نہیں، پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ ابھی حال ہی میں لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن اور ہارورڈ گلوبل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ نے ایک مشترکہ اپیل بھی جاری کی تھی کہ غیرمعیاری ادویات کی روک تھام کے لیے فوری لیکن بہت سخت اقدامات کیے جائیں۔ دوسری صورت میں یہ مسئلہ مزید ہلاکت خیز ہو جائے گا۔ امریکا جیسے ملک میں ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی نے بتایا کہ سن دو ہزار سولہ میں وہاں روزانہ اوسطاً 174 افراد اس لیے موت کے منہ میں چلے گئے تھے کہ انہوں نے جعلی، غیر معیاری یا نشہ آور ادویات استعمال کی تھیں۔ یہ تعداد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں یا خود کشی کر لینے والے امریکی شہریوں کی اوسط روزانہ تعداد سے کہیں زیادہ تھی۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں نشے کے ٹیکے بھی کیمسٹ ہی غیر قانونی طور پر بیچتے ہیں، اصل صورت حال کتنی پریشان کن ہو گی۔‘‘

دو دو کمروں کی ڈرگ ’فیکٹریاں‘

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز یا پمز کے ہارٹ سرجن عدنان طاہر نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’ہمارے ہاں جعلی اور غیر معیاری ادویات کی تیاری اور فروخت کی صورتحال ڈرا دینے والی ہے۔ لاہور اور پشاور جیسے شہروں میں بھی جعلی ادویات بنانے والے خاصے فعال ہیں۔ جو نقلی دوا بیس روپے کی لاگت سے بنتی ہے، وہ ڈھائی تین سو روپے میں بیچی جاتی ہے، جس میں ہر کسی کا حصہ ہوتا ہے۔ دو دو کمروں کے گھروں کو فیکٹری بنا کر رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔ وہاں جو کچھ بنتا ہے، اس میں موت تو ہو سکتی ہے، زندگی نہیں۔ ایسی کئی ادویات اپنی خراب پیکنگ سے بھی پہچانی جا سکتی ہیں۔‘‘

Pakistan Gefälschte Drogen
ڈاکٹر مریض کو جو دوائی تجویز کرتا ہے، کبھی کبھی کیمسٹ کوئی دوسری دوائی بیچنے کے لیے مجوزہ دوائی اپنی مرضی سے تبدیل بھی کر دیتا ہے۔تصویر: DW/I. Jabeen

کارڈیالوجی سرجن ڈاکٹرعدنان طاہر کے مطابق پاکستان کے کئی چھوٹے شہر ایسے بھی ہیں جہاں کیمسٹ کی کسی دکان پر ایک چوتھائی سے لے کر نصف تک ادویات جعلی یا غیر معیاری ہی ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’’پاکستان میں کئی دیگر شعبوں کی طرح اس بارے میں بھی کوئی مصدقہ قومی ڈیٹا موجود ہی نہیں۔ عرف عام میں ایسی دوائیوں کو ’ٹھیکے کی دوائیاں‘ کہا جاتا ہے۔ مریض کو ٹیکا لگائیں، تو اس میں یا تو پانی ہو گا یا گلوکوز۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر مریض کو جو دوائی تجویز کرتا ہے، کبھی کبھی کیمسٹ کوئی دوسری دوائی بیچنے کے لیے مجوزہ دوائی اپنی مرضی سے تبدیل بھی کر دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ غیر معیاری ادویات بنانے والوں کو صرف جرمانے نہیں کیے جانا چاہییں بلکہ ان کے لائسنس منسوخ کر کے انہیں سخت سزائیں بھی سنا جانا چاہییں۔

اکلوتی بیٹی کی موت

اسلام آباد کی رہائشی سائرہ کیانی ایک نجی اسکول کی پرنسپل ہیں۔ ان کی تیرہ سالہ بیٹی ساتویں جماعت کی طالبہ تھی، جب اسے نمونیا ہو گیا تھا۔ سائرہ کیانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم نے بڑا علاج کروایا تھا لیکن ہماری بیٹی کی طبیعت ٹھیک ہونے کی بجائے مسلسل خراب ہی ہوتی چلی گئی تھی۔ پھر ایک دن وہ زندگی کی بازی بھی ہار گئی۔ پتہ چلا ادویات جعلی یا غیر معیاری تھیں۔ بعد میں ہم عدالتوں تک بھی گئے۔ لیکن ہمیں انصاف نہ ملا۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’جنہوں نے معمولی سے منافع کے لیے میری بیٹی کی جان لے لی، کیا میرے منہ سے کبھی ان کے لیے کوئی دعا نکلے گی؟‘‘

نیشنل ٹاسک فورس

پاکستان کے ایک فیڈرل ڈرگ انسپکٹر، ڈاکٹر حسن افضال نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ڈرگ ریگولیشن کیسے کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’پاکستان میں ریگو لیشن آف میڈیسن بنیادی طور پر دو سطحوں پر کام کرتی ہے۔ درآمد، برآمد، تیاری اور کوالٹی کنٹرول، یہ تمام شعبے وفاق کی عمل داری میں آتے ہیں۔ یہ کام ڈریپ نامی وفاقی ادارہ کرتا ہے۔ اس کے بعد ادویات کی سٹوریج، ہینڈلنگ اور ڈسٹری بیوشن سے متعلق معاملات صوبوں کی عمل داری میں آتے ہیں۔‘‘

Pakistan Gefälschte Drogen
ڈاکٹرعدنان طاہر کے مطابق پاکستان کے کئی چھوٹے شہر ایسے بھی ہیں جہاں کیمسٹ کی کسی دکان پر ایک چوتھائی سے لے کر نصف تک ادویات جعلی یا غیر معیاری ہی ہوتی ہیںتصویر: DW/I. Jabeen

ڈاکٹر حسن افضال کے مطابق مارچ 2018 کے بعد سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں نیشنل ٹاسک فورس بنائی تھی، وہ اب تک بہت اچھا کام کر رہی ہے: ''اس فورس نے گزشتہ آٹھ ماہ میں دو ہزار دورے کیے، مختلف علاقوں میں چھاپے مارے تاکہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کی تیاری اور فروخت کو روکا جا سکے۔‘‘

'یہ مفروضے ہیں‘: سرکاری موقف

پاکستان میں فیڈرل ڈرگ کنٹرول کے ڈپٹی ڈائریکٹر غضنفر علی خان سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو انہوں نے بہت سے حقائق اور دعووں کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا، ''پاکستان میں ایسا مسئلہ نہیں ہے، نہ ہی ہمارے پاس کوئی ڈیٹا ہے، جس کی مدد سے یہ کہا جا سکے کہ ملک میں جعلی ادویات کا کاروبار زوروں پر ہے۔ یہ صرف مفروضے ہیں۔ حقیقت کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی یہاں کوئی دو دو کمروں کی فیکٹریاں ہیں، جن کو لائسنس جاری کیے گئے ہوں، اور نہ ہی ان سے مریضوں کی اموات واقع ہو رہی ہیں۔‘‘

غضنفر علی خان کے مطابق پاکستان میں ڈیٹا جمع کرنے کا کوئی رواج نہیں اور نہ ہی سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے وسائل دستیاب ہیں۔ اس وقت ملک میں قریب 37 ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں، جن کے ''استعمال سے انسانی اموات کا تو کسی کو کوئی علم نہیں لیکن ان کے جو ضمنی اثرات ہوتے ہیں، جو فیڈ بیک مریض دیتے ہیں، وہ ہمیں متعلقہ دوا ساز ادارے بتا دیتے ہیں۔‘‘
 

دو سو روپے میں دانتوں کی پالش بھی اور صفائی بھی

عصمت جبیں، اسلام آباد