1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں جسمانی اعضا کا ٹرانسپلانٹ اتنا مشکل کیوں؟

19 دسمبر 2023

اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں میں ٹرانسپلانٹ کی سہولیات میں اضافہ ہوا ہے، لیکن ملک میں اب بھی ہزاروں افراد گردے نا کارہ ہونے کے سبب ٹرانسپلانٹ کے منتظر ہیں۔

https://p.dw.com/p/4aLjp
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

پچیس کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان میں کئی افراد ایسے ہیں جو اپنے جسمانی اعضا ناکارہ ہونے کے سبب ہر برس موت کی وادی کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں ان گنت افراد ایسے بھی ہیں جو جسمانی اعضا کے ٹرانسپلانٹ کے لیے مطلوبہ رقم میسر نہ ہونے کے سبب بے بسی کی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اور زندہ رہنے کے لیے انہیں جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا احساس مجھے تب ہوا جب ہمارے ایک کزن کا ایکسیڈنٹ ہوا اور زخم پہ کسی دوا کے رد عمل کی وجہ سے اس کے دونوں گردے نا کارہ ہو گئے۔ اس کو ہفتے میں دو دفعہ گردے ڈائیالیسس کروانے کی اذیت سے گزرنا پڑ رہا تھا۔

اسی سلسلے میں چند برس پہلے ہم ایک نجی ہسپتال کی انتظار گاہ میں ڈاکٹر صاحب کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ یہ شہر کا ایک نامی گرامی نجی ہسپتال تھا۔ جن ڈاکٹر سے ہم نے وقت لیا تھا، وہ ایک نیم سرکاری ہسپتال کے شعبہ امراض گردہ کے ہیڈ تھے اور ان سے ہسپتال میں ان کی ڈیوٹی کے اوقات میں ملاقات قریب قریب نا ممکن تھی۔

ان دنوں پاکستان میں جگر اور گردے کے ٹرانسپلانٹ کا سلسلہ نیا نیا شروع ہوا تھا۔ چند ایک ہسپتال ہی ایسے تھے، جہاں کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ کرنے والے ڈاکٹروں کی ٹیم موجود تھی۔ اور سرکاری ہسپتالوں میں تو تب یہ سہولت دستیاب ہی نہیں تھی۔ اس سے پہلے لوگ آرگن ٹرانسپلانٹ کے لیے بیرون ملک ہی جاتے تھے۔

اس نجی ہسپتال کی انتظار گاہ میں بیٹھے ہوئے مجھے پہلی بار صحیح معنوں میں احساس ہوا کہ صرف اس ایک شہر کے ایک ہسپتال میں ہی کتنے ایسے مریض موجود ہیں، جو ٹرانسپلانٹ کے منتظر ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرانسپلانٹ کے اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ، عام آدمی تو ٹرانسپلانٹ سے پہلے ہونے والے مطلوبہ ٹیسٹ بھی نہیں کروا سکتا تھا۔

اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں میں ٹرانسپلانٹ کی سہولیات میں اضافہ ہوا ہے، لیکن ملک میں اب بھی ہزاروں ایسے مریض ہیں، جو گردے نا کارہ ہونے کے سبب ٹرانسپلانٹ کے منتظر ہیں۔

پاکستانی قوانین کے مطابق صرف مریض کے قریبی رشتے دار ہی انہیں اپنا گردہ عطیہ کر سکتے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی کا بھی گردہ مریض کے گردے سے میچ نہ کر پائے تو خصوصی اجازت سے کسی دور کے رشتے دار کا بھی لیا جا سکتا ہے۔ مگر بنا کسی خونی رشتے کے آپ کسی سے جسم کا کوئی اعضا نہیں خرید سکتے۔

ایک طرف تو پاکستان میں یہ قوانین ہیں اور دوسری طرف یہاں غیر قانونی طور پہ آرگن ٹرانسپلانٹ کا کام بھی زور و شور سے جاری ہے۔ پوری دنیا میں جسمانی اعضا کی غیر قانونی خرید و فروخت میں پاکستان کا نام اولین ممالک میں آتا ہے۔

یہاں پچھلے دنوں ایک خاتون رفعت جہاں کی بدولت تین زندگیوں کو بچایا گیا۔ انہوں نے دس سال قبل اپنے اعضا عطیہ کرنے کی وصیت کی تھی۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا کیس تھا، جس میں ایک ڈونر کے تین اعضا نکال کر دوسرے افراد کو لگائے گئے۔

بین الاقوامی سطح پر اس وقت اسپین پوری دنیا میں جسمانی اعضا عطیہ کرنے میں پہلے نمبر پہ ہے، جبکہ آبادی کے حساب سے سب اعضا عطیہ کرنے کی صفر اعشاریہ ایک فیصد کی سب سے کم شرح بھارت میں ریکارڈ کی گئی ہے۔

اس وقت پاکستان میں اعضا نا کارہ ہونے کی وجہ سے بے وقت اموات کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے اور ان میں سب سے بڑا تناسب گردے نا کارہ ہونے کی وجہ سے ہونے والی اموات کا ہے ۔

اگر اعضا دستیاب ہوں تو ان افراد میں سے جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں جسمانی اعضا کو عطیہ کرنے کا رحجان نہ ہونے کے برابر ہے، اور اس رجحان کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔