1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں برین ڈرین نہیں بھوک ڈرین ہو رہا ہے

1 اگست 2024

جس رفتار اور تیزی سے پاکستانی نوجوان بیرون ملک جا رہے ہیں اگر دنیا ان کے لیے ویزوں کے حصول کو آسان کر دے تو خدشہ ہے کہ پاکستان میں آباؤ اجداد کی قبریں ہی رہ جائیں گی۔ 1947ء کے بعد اب ایک بڑی ہجرت مشاہدے میں آ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4j0ga
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

بیورو آف امیگریشن کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ اور رواں برس بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ تارکین وطن میں تعلیم یافتہ افراد جیسے ڈاکٹر، انجینیئرز، فارماسسٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایکسپرٹ، اکاؤنٹنٹ، قانون دان وغیرہ شامل ہیں۔ یہ کوئی عام ہجرت نہیں بلکہ بڑی سرعت سے ''برین ڈرین‘‘ ہو رہا ہے اور اگر اس کو حالات کے تناظر میں ''بھوک ڈرین‘‘ کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا۔

ستم ظریفی ہے کہ جب لائق اور ہنر مند افراد اپنے ملک کو خدا حافظ کہتے ہیں تو پیچھے ناتجربہ کار افراد کا صرف ''بوجھ‘‘ باقی رہ جاتا ہے یہ بوجھ معیشت کی ترقی میں کوئی خاص کردار ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔

جبکہ تصویر کے دوسرے رخ کے مطابق سیاسی یا معاشی عدم استحکام کے گرداب میں پھنسنے سے قبل ہی ملک کی اشرافیہ جو بےحساب مال و متاع رکھتی ہے اپنے بچوں اور سرمایے سمیت بیرونِ ملک سکونت اختیار کر لیتی ہے جسے ''کیپٹل ڈرین‘‘سے موسوم کیاجاتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کا ڈرین یعنی اخراج مقامی سطح پر ملک و قوم کو پسماندہ کرتا جاتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ کوئی خطہ اس وقت تک ترقی یافتہ ممالک کی لسٹ میں شامل نہیں ہو سکتا، جب تک اس ملک کا انسانی سرمایہ اپنے آبائی ملک میں رہنے کو فوقیت نہ دے۔ اب ذہنوں میں یہ سوال جاگزیں ہوتا ہے کہ انسان اپنا آبائی ملک کیوں چھوڑتا ہے؟ وہ ملک جہاں اس کی پیدائش ہوئی، بچپن کی یادیں گلی کوچوں سے وابستہ ہوں۔ جہاں اس کے سارے دوست احباب موجود ہوں۔ کیا اس ملک سے ہجرت سہل ہوگی؟

پاکستانیوں کی ہجرت کے پیچھے بہت سے اندرونی اور بیرونی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں جن میں سیاسی رسہ کشی، ڈیفالٹ کی افواہیں، معیشت کی زبوں حالی، افراط زر کی بڑھتی شرح، نیز اس کے برعکس بیرون ممالک جاب مارکیٹ میں ہینڈ سم سیلری پیکج کی دستیابی شامل ہیں۔

بیرون ملک جانے والوں سے اگر پوچھا جائے کہ وہ کیوں جا رہے ہیں تو وہ ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور ملک کے حالات کی ایسی ڈراؤنی تصویر کشی کرتے ہیں کہ گویا ان کا یہاں دم گھٹ رہا ہو۔

متعدد نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ جتنی مہارت ان میں موجود ہے اس کا آؤٹ پٹ انہیں نہیں ملتا۔ ان کی عزت ہی نہیں ہے۔ افسوسناک پہلو ہے کہ پاکستان میں روزگار کی تلاش میں  ہاتھ میں ڈگری لیے نوجوانوں کا گراف بہت زیادہ ہے لیکن نوکریاں نہیں دی جاتیں جو نوجوان تعلیم مکمل کر لیتے ہیں ان کو 2 یا 3 مہینے کی انٹرنشپ کے نام پربھی دھوکا دیا جاتا ہے۔ حکومت بڑا دل کرکے نوکریوں کا اعلان بھی کردے تو نامعلوم وجوہات کی بنا پر نوکریوں کی برخاستگی کا نوٹیفکیشن ایڈمنسٹریشن کو دے دیا جاتا ہے نتیجتاً بیچارے امیدوار نوجوان اداروں کے چکر یوں لگاتے ہیں جیسے شمع کے گرد پروانے۔

اس کے علاوہ سوشل سکیورٹی کا مسئلہ سب سے ذیادہ سامنے آ رہا ہے۔ سندھ کے اکثر نوجوان جب پڑھ لکھ جائیں تو وہ وڈیروں کے ڈر سے خود کو غیر محفوظ گردانتے ہوئے بیرون ملک کوچ کرنے کو غنیمت سمجھتے ہیں۔خیبر پختونخوا میں خواتین صنفی بنیادوں پر تفریق کے سبب باہر جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ پنجاب کے معاشی حالات نوجوانوں کو دلبرداشتہ کر رہے ہیں۔ ہائر ڈگری کے ہوتے ہوئے کم اجرت پر نوکریوں نے نوجوانوں کو فکر اور مایوسی میں دھکیل دیا ہے۔ مایوسی کے سبب سٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سوچ کر روح کانپ جاتی ہے کہ خاندان کا پیٹ پالنے کی خاطر گریجوایٹ لڑکے چوری کی وارداتوں میں ملوث پائے جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں نوجوانوں کو مذکورہ بالا تمام تر مسائل کا سامنا ہے۔

حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ نوجوان ''ڈنکی‘‘ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں یہ جانتے ہوئے کہ اس سستے اور شارٹ کٹ راستے کے ذریعے ان کے مرنے کے 90 سے 95 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ بعض بے رحم انسانی سمگلرز، ایجنٹس ان نوجوانوں کو غیر قانونی راستوں سے کنٹینرز میں بھر کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اکثر نوجوان جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں چند جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں اور جو بچ بچا کر یورپ پہنچ جاتے ہیں انہیں ویزہ، جیل، زبان، اسائلم، مناسب روزگار جیسے مسائل گھیر لیتے ہیں۔

 پاکستان کا بجٹ دیکھا جائے تو اس کا دیوہیکل حصہ داخلی اور بیرونی قرضہ جات کی واپسی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ جبکہ ایک اور بڑا حصہ ڈیفنس سسٹم لے جاتا ہے۔ باقی رقم پاکستان کے سرمایہ دار طبقے پر سبسڈیوں، ٹیکس چھوٹ اور دیگر مراعات کی شکل میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر معمول کے ریاستی اخراجات پوری کر دیتے ہیں۔ صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر، لائیو سٹاک، عوامی فلاح و بہبود، ایگریکلچر اور روزگار کی فراہمی کے لیے بڑے پیمانے پر کوئی پیسہ بچتا ہی نہیں کہ روزگار کے مواقع پنپ سکیں۔

امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کے باہر نوجوانانِ پاکستان کا جم غفیر دیکھ کر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان سے بیرون ملک جانے کا گرین سگنل مل جائے یعنی ویزے آسانی سے دستیاب ہونے لگیں تو 1947ء سے بڑی ہجرت مشاہدے میں آئے گی اور پیچھے فقط آباؤاجداد کی قبریں ہی رہ جائیں گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔