پاکستان میں امریکی فوجی کارروائی: کبھی اجازت نہیں دی، مشرف
10 مئی 2011پاکستانی دارالحکومت سے کچھ دور ایبٹ آباد نامی شہر میں امریکی خصوصی کمانڈوز نے اس ماہ کے شروع میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو جس آپریشن میں ہلاک کیا تھا، اس پر پاکستان میں مسلسل کی جانے والی تنقید اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی بحث کے پس منظر میں کئی امریکی اہلکاورں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسی کارروائی کی پاکستان نے قریب ایک عشرہ قبل ہی امریکہ کو اجازت دے دی تھی۔
اسلام آباد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس پس منظر میں سابق پاکستانی صدر اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے واضح کر دیا ہے کہ ان کے دور میں پاکستان کا امریکہ کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ کبھی نہیں ہوا تھا کہ اگر ایسی خفیہ اطلاعات ملیں کہ بن لادن پاکستان میں ہی کہیں چھپے ہوئے ہیں، تو امریکی کمانڈوز پاکستانی سرزمین پر فوجی کارروائی کرتے ہوئے بن لادن کو گرفتار یا ہلاک کرنے کی کوئی کوشش کرتے۔
اس بارے میں پرویز مشرف کے ترجمان فواد چوہدری نے آج منگل کے روز ایسی رپورٹوں کو قطعی بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ان کی بھر پور تردید کی کہ جنرل مشرف اور سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی حکومتوں کے درمیان ماضی میں ایسی کوئی ’انڈرسٹینڈنگ‘ ہوئی تھی۔
فواد چوہدری کے بقول مشرف دور میں پاکستان نے اس بارے میں نہ تو امریکہ کے ساتھ کوئی تحریری معاہدہ کیا تھا اور نہ ہی ایسی کوئی زبانی مفاہمت ہوئی تھی۔ فواد چوہدری نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ مشرف نے دراصل اس بارے میں امریکہ کی متعدد درخواستوں کو ہمیشہ رد ہی کیا تھا کہ واشنگٹن کو پاکستان میں فوجی کارروائیاں کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔
سابق پاکستانی صدر مشرف کے اس ترجمان نے یہ وضاحتی بیان دبئی سے دیا، جہاں اس وقت خود پرویز مشرف بھی مقیم ہیں۔
امریکہ پر گیارہ ستمبر2011ء کے دہشت گردانہ حملوں کے ذمہ دار اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو امریکی بحریہ کے SEALS کہلانے والے خصوصی کمانڈوز کے ایک دستے نے دو مئی کو علی الصبح ایبٹ آباد میں ان کی رہائش گاہ پر کارروائی کر کے ہلاک کر دیا تھا، جس کے چند ہی گھنٹے بعد امریکی حکام نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ کوئی بھی ملک بن لادن کی لاش کو لینے پر تیار نہیں تھا، اس لیے اسے دفنانے کی بجائے ’اسلامی طریقے سے‘ سمندر برد کر دیا گیا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امتیاز احمد