1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں اعضاء کی پیوندکاری کے جامع نظام کی ضرورت

24 اکتوبر 2023

دو ہفتے قبل پنجاب کے نگران وزیر اعلٰی نے ایسے گروہ کی گرفتاری کا اعلان کیا جو گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث رہا اور اب تک 328 ایسے آپریشن سر انجام دے چکا تھا۔

https://p.dw.com/p/4XhPK
Bonn Nierentransplantation in einer Klinik in Nordrhein Westfalen
تصویر: Ute Grabowsky/photothek/picture alliance

ہسپتالوں کی بجائے نجی رہائش گاہوں میں انجام پانے والے ان غیر قانونی آپریشنز میں ملزم ڈاکٹر فواد کی معاونت کرنے والا شخص کوئی ماہر طب نہیں بلکہ موٹر مکینک تھا۔

ایسا نہیں کہ یہ اپنی طرز کا پہلا واقعہ تھا بلکہ وقتاً فوقتاً ایسی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ اگست میں لاہور سے ایک ایسا گروہ پکڑا گیا جس نے اپنے فارم ہاؤس کو کڈنی ٹرانسپلانٹ سینٹر ڈکلیئر کر رکھا تھا اور پولیس کے مطابق یہ گروہ”پیٹ درد کے مریضوں کا خفیہ طور پر گردہ نکال کر مہنگے داموں بیچنے کا دھندہ کر رہا تھا۔"

 ماہرین کے مطابق پیوندکاری کے مریضوں کی بڑی تعداد اور اس کے مناسب نظام کی عدم موجودگی ایسے گروہوں کو قدم جمانے کا موقع دیتی ہے۔ 

 پاکستان کے قومی مرکز برائے  شماریات صحت نے اعضاء کے غیر فعال ہونے کو ملک میں موت کی سب سے بڑی وجہ قرار دے رکھا ہے۔ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ پچاس ہزار سے زیادہ افراد اعضاء کی پیوندکاری نہ ہو سکنے کے نتیجے میں موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 

ماہرین کے نزدیک غیر قانونی پیوندکاری روکنے اور لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو موت کے منہ سے پچانے کے لیے پاکستان کو اعضا کی پیوندکاری کے جامع نظام کی ضرورت ہے۔

 پاکستان میں اعضاء کی پیوندکاری کا موجودہ نظام کیا ہے؟

2007 ء سے پہلے پاکستان میںانسانی  اعضاء کی خرید و فروخت پر پابندی نہ تھی۔ اس وقت اعضاء کی پیوند کاری کو ریگولیٹ کرنے اور گردوں کے بڑھتے ہوئے کاروبار کو روکنے کے لیے وزارت صحت اور قانون نے مل کر ایک آرڈیننس تیار کیا۔ 

آرڈیننس کے مطابق اعضاء کا عطیہ دینے والے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ مریض کا ”خونی رشتہ دار" یعنی والدین، بیٹے، بیٹی، بہن، بھائی میں سے کوئی ہو یا شریک حیات ہو اور یہ عمل مکمل طور پر رضاکارانہ ہو۔ 

 تاہم اعضاء کی پیوند کاری سے متعلق تشخیصی کمیٹی کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ خونی رشتہ دار کی عدم دستیابی کی صورت میں وہ کسی دوسرے شخص کو رضاکارانہ طور پر اعضاء عطیہ کرنے کی اجازت دے۔

مصنوعی بازو تیار کرنے والا پاکستانی اِسٹارٹ اَپ ’بائیونکس‘

 

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے شعبہ پیوندکاری سے وابستہ ڈاکٹر نصیر کہتے ہیں کہ ”انسانی اخلاقیات اور طبی اعتبار سے یہ عمدہ قوانین ہیں اور ہمارا موجودہ نظام انہی کے مطابق کام کر رہا ہے۔ لیکن رشتہ دار کی عدم موجودگی میں معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ خونی رشتہ دار کی بات الگ ہے لیکن دیگر کتنے لوگ رضاکارانہ طور پر اپنے جسم کا عضو عطیہ کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں؟ یہاں سے پیسے کا عمل دخل شروع ہوتا ہے اور مارکیٹ میں گنجائش دیکھتے ہوئےاعضاء  فروش گروہ متحرک ہوتے ہیں۔ کمیٹی کے سامنے معاملہ رکھنا اور اجازت لینا وقت طلب اور پیچیدہ عمل ہے اس لیے لوگ ڈاکٹر کی مٹھی گرم کرتے اور بالعموم پرائیویٹ رہائش گاہوں میں ایسے آپریشن کروا لیتے ہیں۔"

New York Experiment Transplantation Schweineniere auf Mensch
پاکستان میں بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرنے کے قوانین موجود ہیں لیکن نظام نہیںتصویر: Joe Carrotta/NYU Langone Health/AP/picture alliance

 

خیال رہے کہ پنجاب کے موجودہ وزیر صحت بھی رشتے دار سے ہٹ کر کسی اور شخص کے عضو کے حصول کو ایک طویل اور مشکل عمل قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہے ہم ”کیڈاویرک ٹرانسپلانٹ (بعد از مرگ کی جانے والی پیوند کاری) کی طرف جائیں جو ساری دنیا میں ہو رہا ہے۔" اس میں عوام بطور ڈونر رجسٹرڈ ہوں اور ان لوگوں کے اعضا نکال لیے جائیں جن کے برین سٹیم ڈیڈ ہو چکے ہوں۔

بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرنے کا نظام کیا ہے اور یہ کیوں ضروری ہے؟ 

یہ نظام کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو اردو نے پنجاب کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ میں کڈنی ٹرانسپلانٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر ندیم بن نصرت سے رابطہ کیا۔ 

ڈاکٹر ندیم بن نصرت نے بتایا کہ ”کسی ادارے کے ذریعے ہسپتالوں کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو آرگن ڈونر کارڈ جاری کر سکیں، اس کارڈ کا مطلب ہے متعلقہ شخص نے موت کے بعد اپنے اعضاء عطیہ کرنے کی رضاکارانہ اجازت دی ہے۔ یہ کارڈ ڈونر کی جیب میں اسی طرح ہوتا ہے جیسے ہم شناختی کارڈ وغیرہ رکھتے ہیں۔

حادثے یا جان لیوا بیماری کے وقت جب مریض مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ ہو اور اس کا دماغ مر چکا ہو تب اس کے خاندان کی اجازت سے اس کے اعضاء نکال لیے جاتے ہیں۔ ہمارے پاس بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرنے کے قوانین موجود ہیں لیکن نظام نہیں۔"

Pakistan Muhammad Iqbal, Nierenspender
پاکستان میں گردے کا عطیہ دینے والا ایک شخص اپنی فیملی کے ساتھتصویر: DW/R. Aslam

ڈاکٹر ندیم کہتے ہیں ”اعضا نکالنے کے بعد انہیں چند گھنٹوں کے اندر اندر دوسرے جسم میں لگانا ہوتا ہے ورنہ وہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کمپیوٹرائزڈ طریقے سے ہسپتال آپس میں جڑے ہوں اور سب کو علم ہو کہاں کس وقت کس عضو کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارا شعبہ صحت ایسے نظام کو چلانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ ہمارے پاس نہ تو انفرا اسٹرکچر ہے نہ ہی تربیت یافتہ عملہ اور نہ کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا سسٹم۔"

وہ شعبہ صحت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے علاؤہ بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے آگاہی مہم کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔ ”ہمارے پاس ادارے ہیں لیکن کام کیا ہو رہا ہے؟ ہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی آگاہی مہم تک ڈیزائن نہیں کر سکے جس سے لوگوں کو پتہ چلے تاکہ بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرتے ہوئے وہ کئی لوگوں کی زندگی بچا سکتے ہیں۔"

ڈونر آرگن کارڈ حاصل کرنے کے لیے ٹرانسپلانٹ سوسائٹی آف پاکستان کا ادارہ موجود ہے مگر حیرت انگیز طور پر یہاں رجسٹریشن کروانے والے کل افراد کی تعداد محض دس ہزار تین سو تراسی ہے۔

امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے آن لائن پبلشنگ ایڈیشن میں Obstacles to the deceased donor transplantation in Pakistan  کے نام سے شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں زندگی میں اعضاء عطیہ کرنے کا رجحان ہے مگر بعد از مرگ نہیں۔ ”چین اور ایران نے بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرنے کا جامع نظام وضع کر رکھا ہے لیکن پاکستان اور انڈیا اس سلسلے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔"

مذکورہ بالا تحقیق کے مطابق ”اعضاء کی پیوندکاری کی ضرورت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اگر بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرنے کا موثر نظام وضع نہیں کیا گیا تو سالانہ ہزاروں زندگیوں کے چراغ بُجھتے  رہیں گے۔ ‘‘