1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: عید سے پہلے مزید پابندیاں اُٹھانے پر غور

شاہ زیب جیلانی
5 مئی 2020

وفاقی حکومت حفاظتی قواعد و ضوابط کے تحت کاروبار اور ٹرانسپورٹ کھولنا چاہتی ہے۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ پابندیوں میں نرمی کے ساتھ جڑے ضوابط پر عملدرآمد کیسے ممکن ہو گا؟

https://p.dw.com/p/3boJk
Pakistan Peschawar Coronavirus  Lockdown
تصویر: DW/F. Khan

کورونا کے بحران کے دوران وزیراعظم عمران خان کا شروع سے ہی موقف رہا ہے کہ پاکستان جیسا غریب ملک لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وفاقی حکومت دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ عید سے پہلے ٹرینیں اور پبلک ٹرانسپورٹ چلانے پر غور کر رہی ہے۔ تاہم وفاقی کابینہ کے وزرا کا کہنا ہے کہ جہاں بھی پابندیوں میں نرمی لائی جائے گی، اسے حفاظتی ہدایات (اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز) پر عمل درآمد سے مشروط کیا جائے گا۔  

پاکستان میں پبلک آرڈر کا نفاذ بنیادی طور پر صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ ماہرین کے مطابق صوبوں کے لیے پولیس کے زور پر شہر شہر گلی گلی  سماجی دوری سے متعلق قوائد و ضوابط پر عمل کرانا ناممکن ہو گا۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں رمضان شروع ہونے کے ساتھ ہی کئی علاقوں میں لاک ڈاؤن پہلے ہی غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ مساجد میں باجماعت نماز اور تراویح کے حوالے سے حفاظتی ہدایات کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کی اطلاعات ہیں۔ بیشتر شہروں اور قصبوں میں افطار سے پہلے بازاروں میں رش عام ہو چکا ہے۔

Afghanistan Herat Coronavirus
تصویر: Getty Images/AFP/H. Hashimi
Pakistan Peschawar Coronavirus  Lockdown
تصویر: DW/F. Khan

ماہرین کا کہنا ہے کہ جوں جوں لوگوں کی نقل و حرکت بڑھے گی کیسز اور اموات میں اضافہ ہو گا اور صوبائی مشنری کے لیے ''ایس او پیز‘‘ پر عملدرآمد کرانا مشکل ہوتا جائے گا۔ ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ اگر حکومت با اثر حلقوں کے دباؤ میں آکر نقل و حرکت پر پابندیاں اٹھاتی گئی تو حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔

پاکستان انفیکشن کنٹرول سوسائٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر رفیق خانانی کہتے ہیں، ''میں صورتحال کو بگڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد طبی نظام کو مفلوج کر سکتی ہے۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی مثال لیں تو وہاں کوئی دو کروڑ آبادی کے لیے پانچ یا چھ ہسپتال ہیں، جہاں کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کی جا سکتی ہے۔ شہر کے سینکڑوں دیگر ہسپتال اور کلینک کورونا کے مشتبہ کیسز کو دیکھنے سے انکار کر رہے ہیں۔

سندھ انسٹیٹوٹ آف یورولوجی (ایس آئی یو ٹی) کے پروفیسر ڈاکٹر فضل اختر کے مطابق اس وقت شہر میں کورونا کے مریضوں کے لیے ستر کے قریب وینٹیلیٹر مختص ہیں جبکہ مزید چھبیس جلد دستیاب ہو جائیں گے۔ ان کے مطابق فی الحال تو شاید یہ کافی ہوں لیکن اگر مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھتی گئی تو مشینیں کم پڑ جائیں گی۔

پاکستان میں منگل کی شام تک رپورٹ کیے گئے کیسز کی تعداد بائیس ہزار کے قریب ہے جبکہ اموات پانچ سو تک پہنچ رہی ہیں۔