1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: سینیٹرز کی فوجی ٹرائل کی حمایت میں قرارداد کی مذمت

15 نومبر 2023

مختلف سیاسی جماعتوں کے سینیٹرز نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات سے متعلق قرارداد کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا میں منظور قرارداد کی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4YosW
پاکستانی پارلیمان کی عمارت
اراکین نے قرار داد کی منظوری کو جمہوری اصولوں پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کو کسی بھی حالت میں شہریوں کے مقدمات چلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتیتصویر: AAMIR QURESHI/AFP

پاکستان میں اہم سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے ارکان نے منگل کے روز سینیٹ میں فوجی عدالتوں کی حمایت میں ایک متنازعہ قرارداد کی جلد بازی میں منظوری کے خلاف شدید احتجاج کیا اور اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

سویلین افراد فوجی عدالتوں میں کیوں؟

واضح رہے کہ پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا نے پیر کے روز ایک متنازعہ قرارداد منظور کی تھی، جس میں عدالت عظمیٰ پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے جس میں نو مئی کو ملک گیر احتجاج کے دوران گرفتار کیے گئے عام شہریوں کے فوجی ٹرائل کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

ملزم پاکستانی سویلین مگر عدالتیں فوجی: اکثر سیاسی جماعتیں دانستہ چپ

سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے بغیر کسی بحث کے قرارداد کو اس وقت پیش کرنے کی اجازت دی تھی جب ایوان میں صرف ایک درجن ارکان ہی موجود تھے۔ اس متنازعہ قرارداد کو آناً فانا ًمنظور بھی کر لیا گیا۔

تاریخ کی عدالت

لیکن منگل کے روز جب سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مرزا آفریدی کی سربراہی میں اجلاس شروع ہوا تو مسلم لیگ (ن) کی سعدیہ عباسی نے قرارداد کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد تمام 92 ارکان کی عدم موجودگی میں منظور کی گئی۔

لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ کا پولیس محاصرہ جاری

انہوں نے قرار داد کی منظوری کو جمہوری اصولوں پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کو کسی بھی حالت میں شہریوں کے مقدمات چلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ایوان بالا کے ارکان کے شدید احتجاج اور کورم کی کمی کے باعث ڈپٹی چیئرمین مرزا محمد آفریدی نے اجلاس کی کارروائی چند منٹوں کے اندر ہی ملتوی کر دی۔

پاکستانی پارلیمان
اراکین نے پارلیمانی روایات سے انحراف کرتے ہوئے قرارداد کو جس بے قاعدگی سے پیش کیا گیا، اس پر بھی تنقید کی اور اسے واپس لینے پر زور دیاتصویر: Raja I. Bahader/Pacific Press/IMAGO

ارکان کا کیا کہنا تھا؟

مسلم لیگ (ن) کی سعدیہ عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ عوام کے بہترین مفاد میں ہے اور سینیٹ میں پیش کی گئی قرارداد جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ انہوں نے ایوان کو ایسے مقصد کے لیے استعمال کرنے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔

ان کا کہنا تھا، ''ہم (قرارداد) کی توثیق نہیں کرتے۔ کچھ بھی ہو، ہم فوجی عدالتوں کو اس کی اجازت نہیں دے سکتے اور نہ ہی ہم ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے جو کچھ بھی کیا ہے، اس نے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا ہے۔''

انہوں نے پارلیمانی روایات سے انحراف کرتے ہوئے قرارداد کو جس بے قاعدگی سے پیش کیا گیا، اس پر بھی تنقید کی اور اسے واپس لینے پر زور دیا۔

جب سینیٹ کے چیئرمین آفریدی نے انہیں اس معاملے پر مزید بحث کرنے سے انکار کر دیا، تو دیگر بہت سے ارکان نے بھی اس پر احتجاج کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد تو احتجاج کرتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین کے ڈائس کے سامنے پہنچ گئے اور ان سے کہا کہ وہ اس معاملے پر بولنے کی اجازت دیں۔

تاہم ڈپٹی چیئرمین نے اصرار کیا کہ وہ انہیں دن کے ایجنڈے کو ختم کرنے کے بعد ہی اس مسئلے پر بات کرنے کی اجازت دیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے بھی کورم کی کمی کی نشاندہی کی اور مختلف جماعتوں کے اراکین بھی اس معاملے پر بحث کا مطالبہ کرتے رہے تاہم ڈپٹی چیئرمین نے کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کر دی۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

موروثیت: پاکستان میں جمہوریت کو لاحق سب سے بڑا چیلنج