1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان: سرمایہ داروں کا ٹیکس تنخواہ دار طبقے سے کم

عبدالستار، اسلام آباد
26 جولائی 2023

حکومت سے اربوں روپے کی سبسڈیز لینے والے ایکسپورٹرز اور روزانہ اربوں کا کاروبار کرنے والے ریٹیلرز ملک کے تنخواہ دار طبقے سے بھی کم انکم ٹیکس دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4UQWo
پاکستانی کرنسی میں ہزار ہزار کے نوٹ
پاکستان کے تنخواہ دار طبقے نے مالی سال دو ہزار بائیس تئیس میں ریٹیلرز اور ایکسپورٹرز سے تقریبا 200 فیصد زیادہ انکم ٹیکس دیا ہےتصویر: Imago stock&people

پاکستان کے تنخواہ دار طبقے نے مالی سال دو ہزار بائیس تئیس میں ریٹیلرز اور ایکسپورٹرز سے تقریبا 200 فیصد زیادہ انکم ٹیکس دیا ہے۔ دو مالدار طبقات کی طرف سے کم ٹیکس دینے پر ملک کے کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر ان طبقات کا احتساب کیوں نہیں ہوتا؟

 انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ مالی سال میں 264.3 ارب روپے کا ٹیکس دیا ہے جبکہ ایکسپورٹرز اور ریٹیلرز کی طرف سے ادا کی جانے والی ٹیکس کی رقم نواسی اعشاریہ پانچ ارب تھی، جو تنخواہ دار طبقے کی طرف سے ادا کی جانے والی ٹیکس رقم سے 175 ارب روپے کم بنتی ہے۔

 اخبار کے مطابق ایکسپورٹرز نے گزشتہ مالی سال میں ستائیس اعشاریہ سات ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ کی لیکن انہوں نے انکم ٹیکس کی مد میں صرف 74 ارب روپے ادا کیے جبکہ ریٹیلرز نے 15.6 ارب روپے ادا کئے۔ رپورٹ کے مطابق تنخوادار طبقہ ود ہولڈنگ ٹیکس دینے میں چوتھے نمبر تھا۔

ایکسپورٹرز کا ٹیکس کم کیوں؟

ماہرین کا خیال ہے کیونکہ حکومت کو ڈالر یا بیرونی کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے، جو سروسز یا اشیا کی ایکسپورٹ کی شکل میں آتی ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ٹیکس امور کے ماہر طالب حسین کا کہنا ہے ایکسپورٹرز کے لیے انکم ٹیکس کی ایک خاص شرح ہے، جس کے مطابق وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ایکسپورٹرز کو گراس ریسیٹ یعنی جتنا پیسہ آیا ہوتا ہے اس پر ایک فیصد انکم ٹیکس دینا ہوتا ہتے۔ اس میں چاہے انہیں نقصان ہو یا فائدہ انہیں ایک فیصد ہی دینا پڑتا ہے۔ اس لیے ان کا ٹیکس کم ہوتا ہے۔‘‘

پاکستانی کرنسی کے نوٹ
پاکستان کے تنخواہ دار طبقے نے مالی سال دو ہزار بائیس تئیس میں ریٹیلرز اور ایکسپورٹرز سے تقریبا 200 فیصد زیادہ انکم ٹیکس دیا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/ A. Khan

طالب حسین کے مطابق حکومت اس سے زیادہ ٹیکس نہیں بڑھا سکتی۔ ''کیونکہ اگر اس سے زیادہ ٹیکس بڑھائے گی، تو پھر حکومت کو فارن ایکسچینج ملک میں لانے میں مشکلات ہوں گی. کیونکہ اس ٹیکس کی شرح کو بڑھایا نہیں جا سکتا اس لیے ایکسپورٹرز کی طرف سے ادا کیا جانے والا انکم ٹیکس بھی کم ہی ہو گا۔‘‘

ٹیکس کی شرح دس فیصد ہونی چاہیے

لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے ایکسپورٹرز حکومت سے بے تحاشہ سہولیات اور مراعات لیتے ہیں لیکن جب انکم ٹیکس دینے کا معاملہ آتا ہے تو حکومت اس کو بڑھانے کی ہمت نہیں کرتی۔

زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر مزید ٹیکس نہ لگانے کا اعلان، فائدہ کس کو پہنچے گا؟

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارے ایکسپورٹرز آسان شرائط پہ قرض لیتے ہیں۔ خام مال کی مد میں حکومت سے سہولیات طلب کرتے ہیں۔ بجلی اور انرجی کی قیمتوں میں بھی وہ حکومت سے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود انکم ٹیکس کی شرح گراس ریسیٹ پر صرف ایک فیصد ہوتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق جس فراغ دلی سے حکومت ایکسپورٹرز کو مراعات دیتی ہے، اس کے حساب سے ان سے کم از کم 10 فیصد انکم ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے۔

پاکستان کا ریٹیل سیکٹر

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں میں بڑے پیمانے پہ صنعت نہیں لگی لیکن ریٹیلرز کے کاروبار میں کافی وسعت آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 20 لاکھ سے زیادہ ریٹیلرز ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد کریانہ اسٹورز کی بھی ہے۔ ریٹیل سیکٹر کا جی ڈی پی میں پندرہ فیصد حصہ ہے اور ملک کی پندرہ فیصد لیبر فورس اس سے وابستہ ہے۔ یوں یہ ملکی معیشت کا تیسرا بڑا سیکٹر اور روزگار فراہم کرنے والے دوسرا بڑا سیکٹر ہے۔

ریٹیلرز کی ہیرا پھیری

اس وسعت کے باوجود ریٹیل سیکٹر میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرنے والے سرمایہ دار بہت کم انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ طالب حسین کا کہنا ہے کہ ریٹیلرز جو ریٹرنز جمع کراتے ہیں، انہی کی بنیاد پر انکم ٹیکس لگایا جاتا ہے، ''اس کے علاوہ ریٹیلرز کی ایک بہت بڑی تعداد رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔ جب اتنی بڑی تعداد رجسٹرڈ نہیں ہو گی تو ان پر کس طرح ٹیکس لگایا جائے گا۔‘‘

پاکستان پر اشرافیہ کا تسلط اور آئی ایم ایف کی سربراہ کا مطالبہ

طالب حسین کے مطابق اس کے علاوہ ریٹیلرز جو چیز فروخت کرتے ہیں، اس کی تعداد بھی کم دکھا سکتے ہیں،''مثال کے طور پر اگر انہوں نے 100 ٹن چینی بیچی ہے تو وہ ریکارڈ میں 70 ٹن ظاہر کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کچھ مسائل سپلائی چین سسٹم کے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر شوگر کی فصل میں جہاں 10 فیصد ریکوری ہوئی ہو وہاں وہ سات فیصد ریکوری ظاہر کر سکتے ہیں۔‘‘

حکومتی اقدامات

حکومت پاکستان نے وقتا فوقتا ریٹیلرز کی طرف سے اس طرح کی ہیرا پھیری کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ طالب حسین کے خیال میں ان میں سے کچھ اقدامات کے نتائج بہتر آئے ہیں لیکن مجموعی طور پر صورتحال کوئی بہت زیادہ تسلی بخش نہیں ہے، ''بڑے سپر اسٹورز یا برانڈز کو ایف بی آر سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ اور اب آپ کو جو رسید مل رہی ہے اس رسید کی ایک کاپی ایف بی آر کو بھی جا رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے جو لاکھوں کی تعداد میں ہول سیلرز یا دکان دار ہیں، ان کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟‘‘

ریٹیلرز کی سیاسی طاقت

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق کم ٹیکس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریٹیلرز سیاسی طور پر بہت طاقتور ہیں، ''ان ریٹیلرز سے نہ صرف سیاسی حکومتیں ڈرتی ہیں بلکہ فوجی حکومتیں بھی ان پر ٹیکس لگا نہیں پاتی کیونکہ وہ سیاسی طور پہ بہت طاقتور ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ سسٹم کو کمپیوٹرائز کیا جائے اور اگر آن لائن خریداری بھی بڑھتی ہے تو اس سے بھی ٹیکس نیٹ اور ان ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں آسانی ہو گی۔‘‘