1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور بھارت کے درمیان فروغ پاتے تجارتی تعلقات

شادی خان سیف، کراچی14 فروری 2014

پاکستان اور بھارت کی تاجر برادی کے مابین حالیہ کچھ عرصے میں میل ملاپ خاصا بڑھا ہے اور دونوں ممالک کا کاروباری حلقہ خاصی گرمجوشی سے اسے ایک درخشاں مستقبل کی نوید قرار دے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1B8W0
تصویر: AP Graphics/DW

بھارت کے ایک کاروباری وفد نے رواں ہفتے پاکستان کا دورہ کیا اور باہمی تجارت کے ممکنہ منصوبوں کا جائزہ لیا۔ بھارتی تاجر پاکستان کا دورہ کرنے والے دنیا کے کسی بھی دیگر تجارتی وفود کے مقابلے میں خود کو یہاں زیادہ شناسا محسوس کرتے ہیں اور یوں ان کے بقول کاروبار کرنا بھی آسان رہتا ہے۔ محض دو ماہ کے عرصے میں یہ بھارتی تاجروں کا دوسرا دورہء پاکستان ہے، جس دوران وہ نہ صرف اپنے پاکستانی میزبانوں کی روایتی مہمان نوازی کے گُن گاتے سنائی دیتے ہیں بلکہ سرمایہ کاری کے ٹھوس مواقع کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔

رواں ہفتے فیڈریشن آف انڈین مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کے سیکرٹری مکیش کالرا اپنے ہمراہ 15 بڑی کاروباری شخصیات کو لے کر پاکستان آئے۔ اس وفد میں توانائی کی بچت کرنے والے بلب تیار کرنے والے صنعت کاروں کے ساتھ ساتھ، گارمنٹس، کیمیکل اور ٹیکنالوجی کے شعبوں سے وابستہ تاجر موجود تھے۔

پاک بھارت تجارت کا پلڑا واضح طور پر بھارت کے حق میں ہے
پاک بھارت تجارت کا پلڑا واضح طور پر بھارت کے حق میں ہےتصویر: AP

واضح رہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین قریب ڈھائی ارب ڈالر سالانہ کی تجارت ہوتی ہے جبکہ دبئی و سنگاپور کے راستوں سے ہونی والی بلواسطہ تجارت اس کے علاوہ ہے۔ تجارت کا پلڑا واضح طور پر بھارت کے حق میں ہے۔ تجارتی ذرائع کے مطابق مجموعی تجارت کا قریب 80 فیصد حصہ بھارت سے پاکستان کو بھیجے جانے والے سامان پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان سے بھارت کو ہونی والی برآمدات مجموعی تجارت کا محض 15 سے 20 فیصد ہیں۔

پاکستانی تاجر برادری کو بھارت میں پیش آنے والی مشکلات کے بابت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مکیش کالرا نے کہا،

’’دیکھیں ایسا نہیں ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں مسائل نہیں ہوتے، ہم اگر کسی دوسرے ملک کا ویزہ لینے جائیں اور دیر ہوجائے تو وہ منع کردیتے ہیں اور ہم کچھ نہیں کرپاتے کیونکہ وہ بڑے ملک ہیں، لیکن انڈیا اور پاکستان میں ایسا ہوجائے تو بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے، میڈیا ہائپ بہت زیادہ ہے۔‘‘

مکیش کالرہ نے البتہ دونوں ممالک کی معیشت کے حجم میں بہت بڑے فرق کو غیر معمولی قرار دینے سے انکار کیا۔ بھارت اور چین کے مابین تجارتی عدم توازن کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ برسہا برس سے یہ تجارت چین کے حق میں ہے کیونکہ چینی معیشت کا حجم بہرحال بھارت سے بڑا ہے۔

دونوں ملکوں کی تاجر برادری سرجوڑ کر طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت علاقائی تجارت میں وسیع تر فروغ کی کوششیں کر رہی ہے۔ ممبئی چیمبر آف کامرس کی خاتون چیئرپرسن نیرا ساگی نے کہا کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کو یہ سمجھنا ہوگا کہ خطے کی منڈی بہت بڑی ہے اور کوئی ایک فریق تمام تر ڈیمانڈ پوری نہیں کرسکتا لہذا مل بانٹ کر ہی کام کرنے میں کامیابی کا راز پنہاں ہے۔

’’ نئی دہلی نے اسلام آباد کو یہ باور کروا رکھا ہے کہ پاکستانی تاجرو کے لیے ڈیوٹیاں کم کردی جائیں گی اور ویزہ سروس کو آسان کردیا جائے گا‘‘
’’ نئی دہلی نے اسلام آباد کو یہ باور کروا رکھا ہے کہ پاکستانی تاجرو کے لیے ڈیوٹیاں کم کردی جائیں گی اور ویزہ سروس کو آسان کردیا جائے گا‘‘

پاکستان کے سرفہرست برآمد کنندگان میں سے ایک، امین ہاشوانی اس نکتے سے متفق ہیں۔ یورپی یونین میں جرمنی، براعظم امریکا میں شمالی امریکا اور افریقہ میں جنوبی افریقہ کی مثال دیتے ہوئے ہاشوانی نے کہا کہ علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے کچھ ممالک کو قائدانہ کردار ادا کرنا پڑتا ہے اور جنوبی ایشیا میں یہ کردار بھارت کو نبھانا ہے۔

یاد رہے کہ بھارت، پاکستان کو قریب 15 برس پہلے ہی تجارت کے لیے پسندیدہ ملک کا درجہ دے چکا ہے مگر پاکستان تاحال ایسا نہیں کرپایا ہے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رتبہ ملنے کے باوجود بھارت کی منڈیاں پاکستان سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے لیے اس قدر آزاد نہیں ہیں جتنا کہ پاکستانی منڈیاں بھارت سمیت کسی بھی ملک کو یہ رتبہ دیے بغیر کاروبار کے لیے کھلی ہیں۔ عالمی بینک بھی اس بات کا گواہ ہے کہ نان ٹیرف بیرئرز کی وجہ سے بھارتی منڈی اب بھی کافی حد تک ایک ’کلوزڈ مارکیٹ‘ ہے۔

ماربل اور قیمتی پتھر بھارت برآمد کرنے والے ہاشوانی نے بتایا کہ نئی دہلی نے اسلام آباد کو یہ باور کروا رکھا ہے کہ پاکستانی تاجرو کے لیے ڈیوٹیاں کم کردی جائیں گی، ویزہ سروس کو آسان کردیا جائے گا اور تجارت کے حوالے سے حساس قرار دی گئی اشیاء کی فہرست بھی کم کردی جائے گی،

’’ایسا ابھی تک بہرحال ہوا نہیں ہے، اب پاکستان حکومت کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں بات چیت کو آگے بڑھائے تاکہ پاکستانی تاجروں کو بھارتی منڈیوں تک زیادہ سے زیادہ اور حقیقی رسائی مل سکے۔‘‘

موجودہ صورتحال جیسی بھی ہے، ہاشوانی سمیت بیشتر پاکستانی تاجر اس بات پر متفق ہیں کہ دو طرفہ اور پھر علاقائی تجارت کے فروغ میں سب ہی کا فائدہ ہے اور یہ سیاسی چپلقش کو دور کرنے کا ایک آسان ترین راستہ بھی ہے۔ رابطوں کے سلسلے کو دوام دینے کے لیے ان دنوں کراچی کے تاجر ممبئی جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں جہاں وہ پاکستان مصنوعات کی نمائش سجائیں گے۔