1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: الیکشن سے پہلے شیعہ آبادی پر حملوں میں اضافہ

5 مارچ 2013

پاکستانی شہر کراچی ميں گزشتہ اتوار کے روز ہونے والے بم دھماکے کے نتيجے ميں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ مبصرين ايسے حملوں کو ملک ميں جاری فرقہ ورانہ تشدد کو روکنے کے سلسلےميں حکومتی ناکامی کا ثبوت قرار دے رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/17qQS
تصویر: BANARAS KHAN/AFP/Getty Images

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے موصولہ ايک رپورٹ کے مطابق سياسی تجزيہ نگار ملک ميں جاری فرقہ ورانہ خونریزی کے پيش نظر آئندہ عام انتخابات کے انعقاد اور پھر اقتدار کی پر امن منتقلی کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار بھی کرنے لگے ہيں۔

سب سے زیادہ آبادی والے پاکستانی شہر کراچی ميں ايک شيعہ مذہبی رہنما مولانا امين شہيدی نے کہا کہ ان حملوں کے پيچھے ایسے عناصر کار فرما ہيں جو پاکستان کو عدم استحکام کی جانب دھکيل رہے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر اس قسم کے دہشت گردانہ واقعات جاری رہے، تو خود کش حملوں اور دھماکوں کی گونج ميں عام انتخابات کا انعقاد آخر کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟‘‘

ايک اور شيعہ مذہبی رہنما علامہ اصغر عسکری نے ملک ميں شيعہ آبادی کے خلاف کیے جانے والے حملوں کا ذمہ دار حکومت اور سلامتی کے ذمہ دار ملکی اداروں کو ٹھہرایا۔ ان کا کہنا ہے، ’’اس تشدد کی ذمہ داری حکومت، سکيورٹی اداروں اور شيعہ مخالف ذہنيت پر عائد ہوتی ہے۔ اسی شيعہ مخالف ذہنيت کی وجہ سے ايسے فتوے جاری کيے جاتے ہيں، جن ميں اہل تشیع کو اسلام کا حصہ تسلیم کرنے کی بجائے انہیں غير مسلم قرار ديا جاتا ہے۔‘‘

پاکستانی وزير داخلہ رحمان ملک
پاکستانی وزير داخلہ رحمان ملکتصویر: DW/R.Saeed

کئی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان ميں اکثريتی سنی آبادی کو نظریاتی طور پر سعودی عرب کی حمايت حاصل ہے جبکہ شيعہ آبادی کے نمائندہ قرار دیے جانے والے کئی گروپوں کی پشت پناہی مبینہ طور پر ایران کر رہا ہے۔

پاکستان کی کل 180 ملين سے زائد کی آبادی کا اندازہﹰ 20 فيصد حصہ شيعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک ملک کے مختلف حصوں ميں شيعہ عقیدے کے حامل شہریوں پر کیے جانے والے حملوں ميں 228 افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ جنوری اور فروری کے مہینوں میں صرف بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ ميں ہی دو بم حملوں ميں کم از کم 176 افراد لقمہء اجل بنے۔ اتوار کے روز تازہ ترین حملہ جنوبی شہر کراچی ميں عباس ٹاؤن نامی علاقے ميں کیا گیا بم حملہ تھا، جس ميں کم از کم 52 افراد ہلاک اور 130 کے قریب لوگ زخمی ہوئے تھے۔

امريکی شہر نيو يارک ميں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہيومن رائٹس واچ کے مطابق گزشتہ سال اسی نوعيت کے فرقہ ورانہ حملوں میں ملک بھر ميں 400 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ چند پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سن 2012 کے دوران ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد 400 سے کہيں زيادہ ہو سکتی ہے۔

پاکستان ميں فرقہ ورانہ تشدد کے موضوع پر ڈی پی اے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے سکیورٹی امور کے ايک ماہر حسن عسکری نے کہا کہ تشدد کی اس لہر کے پيچھے مشترکہ طور پر طالبان انتہا پسند اور لشکر جھنگوی نامی ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم ہيں۔

کراچی ميں کيے گئے دھماکے سے متاثر ہونے والی عمارت
کراچی ميں کيے گئے دھماکے سے متاثر ہونے والی عمارتتصویر: Reuters

دوسری جانب ان خونریز واقعات کی روک تھام ميں حکومتی ناکامی پر کئی حلقے اب ملکی فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی امور کے معروف پاکستانی تجزيہ نگار رسول بخش رئيس کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس تشدد کے پيچھے فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے والے گروہ ہی کار فرما ہيں تاہم ان کے بقول خونریزی کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی عدم استحکام کی صورتحال سے فائدہ بالآخر ملکی فوج کو ہی پہنچےگا۔ رئیس کے مطابق منتخب جمہوری حکومت کی اس شعبے میں ناکامی سے فوج کو طويل المدتی فائدہ ہو سکتا ہے۔

اسی طرح کے تجزیوں کے تناظر میں پچھلے دنوں پاکستانی فوج کے ترجمان ميجر جنرل عاصم ياسين باجوہ نے کہا تھا کہ پاکستانی مسلح افواج کسی بھی انتہا پسند گروہ یا تنظیم کی معاونت نہيں کر رہیں اور وہ ملک میں بر وقت عام انتخابات کے انعقاد کی حامی ہيں۔ میجر جنرل باجوہ کے مطابق، ’’ہم گزشتہ پانچ سالوں سے جمہوری نظام کی حمايت جاری رکھے ہوئے ہيں اور اب انتخابات کے بر وقت انعقاد کی بھی حمايت ہی کريں گے۔‘‘ پاکستانی فوج کے اس ترجمان کے بقول مئی میں متوقع پارلیمانی انتخابات ميں کسی بھی تاخير کی صورت ميں ملکی مسلح افواج کو کسی بھی طرح کا کوئی فائدہ نہيں پہنچے گا۔

as / mm (dpa)