1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ’اعلان لاتعلقی‘ کا سلسلہ اور مفلوج کاروبار زندگی

شمشیر حیدر
2 نومبر 2018

آسیہ بی بی کے مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد سے اب تک پاکستان میں کئی اہم شاہراہیں بند ہیں۔ فوج اور حکومتی بیانات میں مقدمے سے جبکہ تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے توڑ پھوڑ سے لاتعلقی کا اعلان سامنے آیا۔ سوشل میڈیا کیا کہتا ہے؟

https://p.dw.com/p/37Ydx
Pakistan Lahore Proteste nach Blasphemie Urteil
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

پاکستان میں آسیہ بی بی کے مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد سے مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مقدمے کے فیصلے سے ناخوش پاکستان تحریک لبیک نامی مذہبی تنظیم کے کارکن ایسے مظاہروں اور دھرنوں میں شریک ہیں۔

اس تحریک کے رہنما خادم حسین رضوی سمیت دیگر رہنماؤں نے مقدمے کا فیصلہ قبول نہ کرتے ہوئے ملکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ملکی فوج کے سربراہ کے خلاف بھی الزامات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ حکومت نے دھرنوں کے خاتمے کے لیے اس جماعت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔

پاکستانی سوشل میڈیا پر آج تیسرے روز بھی یہی موضوع زیر بحث ہے اور آج مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ آئی ایس پی آر #ISPR ٹرینڈ کر رہا ہے۔

فوج کی ’لا تعلقی‘

اس تناظر میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے آج جمعہ دو نومبر کو آسیہ بی بی کے مقدمے کے فیصلے اور اس کے بعد ملک میں جاری احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے سرکاری ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''آسیہ بی بی کا کیس قریب دس برسوں سے عدالتوں میں چل رہا تھا۔ پہلے انہیں سزا ہوئی، وہ قید میں رہیں اور اب سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ دیا ہے تو یہ ایک قانونی عمل ہے۔ میری تمام دینی جماعتوں سے درخواست ہو گی کہ ان کے احتجاج کی وجہ سے بھی شاید ایسا ہوا ہو لیکن قانونی عمل ہے اور اس پر پٹیشن دائر کر دی گئی ہے۔ اب اس پر فیصلہ ہونے دیں اور دیکھیں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔‘‘

میجر جنرل آصف غفور کا مزید کہنا تھا، ’’افواج پاکستان چاہیں گی کہ یہ صورت حال امن عامہ کی صورتحال خراب کیے بغیر حل ہو۔ بدقسمتی سے فوج کو ہر معاملے میں گھسیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس معاملے کو ہی دیکھیں یہ ایک عدالتی مقدمہ ہے، پہلے ایک فیصلہ آیا اور اب ایک اور فیصلہ آیا، تو اس کیس کے ساتھ تو فوج کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اس کے دوران فوج کے خلاف بات چیت کرنا، یہ بہت افسوس ناک عمل ہے۔ افواج پاکستان اپنی برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چل رہی ہیں۔ اس کیس سے تعلق کے بغیر بھی ہماری یہ خواہش ہو گی کہ اس سے اجتناب کیا جائے اور وہ قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے جس کا آئین اور قانون ہمیں اجازت دیتا ہے۔‘‘

حکومت کی ’لا تعلقی‘

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے ٹوئٹر ہینڈل سے انسانی حقوق سے متعلق وفاقی وزیر شیریں مزاری کا ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کا آسیہ بی بی کے مقدمے میں نظر ثانی کی اپیل سے کوئی تعلق نہیں۔

’’میڈیا کی اصلاح کے لیے عرض ہے کہ ایک احتجاج کرنے والے نے سپریم کورٹ میں نظرثانی پیٹیشن دائر کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے حکومت کا ان دونوں چیزوں سے کوئی تعلق نہیں، نظرثانی پٹیشن درخواست گزار اور سپریم کورٹ کے درمیان ہیں۔ ڈاکٹر شیریں مزاری‘‘

تحریک لبیک کی ’توڑ پھوڑ سے لاتعلقی‘

دوسری جانب سوشل میڈیا پر تحریک لبیک کے رہنما خادم رضوی کا ایک بیان بھی شیئر کیا جا رہا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے دوران املاک کو نقصان پہنچانے اور توڑ پھوڑ میں ان کی جماعت کے کارکن ملوث نہیں ہیں۔

بیان میں کہا گیا، ’’ایک بار پھر سب کو مطلع کیا جا رہا کہ کسی قسم کی توڑ پھوڑ یا بدامنی پھیلانے والوں سے ہمارا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘

سوشل میڈیا پر ردِ عمل

پاکستانی سوشل میڈیا صارفین اس معاملے پر منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ تحریک لبیک اور توہین مذہب کے حامی صارفین مظاہروں کی حمایت میں جب کہ دیگر صارفین کی اکثریت مظاہروں کے لیے اختیار کردہ طریقہ کار کے خلاف پیغامات شیئر کر رہے ہیں۔

فوج کے ترجمان کے بیان کے ردِ عمل میں معین وٹو نامی ایک صارف نے لکھا، ’’پچھلے دھرنے میں 1000 روپے فی کَس کِس نے دیے؟ رضوی کو آفرز کس نے دیں۔ نہ ایسا نہ کریں، کہ اب جب آپ کے پودے تناور درخت بن کر پھل دینے لگے ہیں تو آپ لا تعلق ہو جائیں۔‘‘

پشتون تحفظ موومنٹ کے مظاہروں کے بارے میں فوج کے ترجمان کے دوٹوک بیان کے برعکس تحریک لبیک کے مظاہروں کے حوالے سے جنرل آصف غفور کا بیان نسبتاﹰ نرم دکھائی دیتا ہے۔ اسی حوالے سے مونا یوسفزئی نامی ایک صارف نے لکھا، ’’منظور پشتین اور پی ٹی ایم کو غدار کہنے والوں جنرل باجوہ صاحب جو لوگ آپ کو قادیانی کہہ رہے ہیں اور فوج کو بغاوت پر اکساتے ہیں ان کو غداری کی سرٹیفیکیٹ کب دوگے؟‘‘

تحریک لبیک کے ماضی میں دیے گئے ایک دھرنے میں فوج کے کردار کے حوالے سے ایک صارف نے لکھا، ''آصف غفور کا کہنا ہے کہ آرمی کا آسیہ کے کیس سے کچھ تعلق نہیں، بالکل ہم مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ واقعی پاک آرمی کا کوئی تعلق نہیں لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جنرل فیض حمید علامہ رضوی سے کیوں مذاکرات کرنے گئے حکومت جانے انتظامیہ جانے اور علامہ رضوی جانیں۔‘‘

حکمران جماعت تحریک انصاف ماضی میں دھرنے اور مظاہرے کرتی رہی ہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد موجودہ صورت حال میں وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ تحریک لبیک کے مظاہروں میں شرکت نہ کریں۔ سابقہ دھرنوں کے بارے میں ایک صارف نے تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے لکھا، ''2014 میں تحریک انصاف کے اسلام آباد کے مرکز ڈی چوک پر پارلیمنٹ کے سامنے 126 دن تک دھرنے کے سبب معیشت کو 547 ارب روپے کا نقصان ہوا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید