1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک امریکا تعلقات طویل المدتی ہیں، رچرڈ ہوگلینڈ

20 جنوری 2018

پاکستان کے لیے نائب سابق امریکی سفیر رچرڈ ہوگلینڈ نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں بہتری آئے گی۔ ان کے بقول طویل المدتی تعلقات میں اتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے۔

https://p.dw.com/p/2rCtj
USA Staatstrauer für Benazir Bhutto in Washington
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Zaklin

پاکستان اور امريکا کے درميان بڑھتی کشيدگی کے پس منظرميں پاک پيک نے پاکستان کے لیے سابق نگران اور نائب امریکی سفير رچرڈ ہوگلينڈ کے ساتھ پاک امريکی تعلعقات پرايک اہم ٹيلی فونک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس ميٹنگ ميں امريکا بھر سے تقريبا پچاس کے قريب پاکستانی نژاد امريکی شہری شريک ہوئے۔

سلامتی کونسل میں پاکستان اور امریکا کی افغانستان پر لفظی جنگ

اقوام متحدہ پاکستان پر دباؤ بڑھائے، امریکا

'امریکی الزامات ، پاکستانیوں کے لیے دھوکے کے مترادف‘

دہشت گردوں کے ’محفوظ ٹھکانے‘ ختم کر دیے جائیں گے، ہلینا وائٹ

پاک پيک واشنگٹن ميں سن 1989 سے قائم ايک ایسی آرگنائزيشن ہے، جس کا مقصد امريکا ميں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ پاک پيک کے صدر ڈاکڑ جليل خان نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ یہ آرگنائزیشن لابينگ کے ذريعے تعليم، خارجہ امور سے متعلق حکومتی پالیسی، ايکٹيوزم اور شعور و آگاہی جيسے اہم معاملات پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ سابق امريکی سفير برائے پاکستان رچرڈ ہوگلينڈ کے ساتھ اس آرگنائزیشن کی یہ کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ايک کڑی ہے۔

گزشتہ ہفتے منعقد ہوئی اس کانفرنس کے موقع پر پاک پيک کی بورڈ ممبر امينہ ضياء نے ڈی ڈبليو کو بتایا کہ واشنگٹن ڈی سی سے متضاد بيانات آنے کی وجہ سے پاکستانی کميونٹی ميں بے چينی بڑھ رہی ہے۔ مگر دوسری جانب لوگ سياست ميں فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہيں اور وہ اسی ليے سياسی سطح پر متحرک نظر آتے ہيں۔

اس موقع پر ڈی ڈبليو کی نامہ نگار مونا کاظم شاہ نے رچرڈ ہوگلينڈ سے انٹرویو بھی کیا۔ ان کا پہلا سوال تھا کہ پاکستان اور امريکا کی کشيدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کيا آپ پاکستان اور امريکا کو سفارتکاری جاری رکھنے کا اور باہمی تعلقات بہتر کرنے کا مشورہ ديں گے؟

اس سوال کے جواب میں منجھے ہوئے سفارتکار رچرڈ ہوگلينڈ نے کہا، ’’یہ ايک بہت اہم سوال ہے۔ اسلام آباد اور واشنگٹن کے غير مستحکم تعلقات ان دونوں ممالک کے ليے اچھے نہيں ہیں ۔ ان دونوں ملکوں کو ايسا کچھ نہيں کرنا چاہيے جس سے ان کے خارجی تعلقات کو نقصان پہنچے۔ ہمارا ايک ماضی رہا ہے۔ ہمارے تعلقات بہت مضبوط رہے ہيں۔ اس وقت پاکستانی امريکيوں اور يو۔ ايس کانگريس کو اس رشتے اور ہمارے ماضی کے مضبوط تعلقات کو ياد دلانا ہوگا۔‘‘

اس موقع پر ہوگلینڈ نے ’سلالہ سانحہ‘ کا حوالہ ديتے ہوئے کہا، ’’ميں اُس وقت پاکستان ميں تعینات تھا۔ ميں نے وہ کشيدگی کا وقت ديکھا ہے۔ دونوں ملکوں کے خارجی تعلقات اس وقت بہت خراب ہو گئے تھے مگر وقت تمام زخم بھر ديتا ہے۔ اُس وقت کچھ اچھے لوگوں کی وجہ سے، جنہوں نے پس پردہ رہ کر بہت اہم کردار ادا کيا، اور کشیدہ تعلقات بہتر بنانے میں مدد فراہم کی۔ ہر طويل الميعاد تعلق ميں اس طرح کے اتار چڑھاؤ آتے ہيں۔ ميں پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے پراعتماد ہوں۔‘‘

اس ٹیلی فونک کانفرنس کے دوران پاک پيک کے ايک ممبر کے ایک سوال کے جواب میں ہوگلینڈ نے کہا، ’’بھارت خطے ميں اپنی علاقائی طاقت کو برقرار رکھنے کے ليے جو چاہے کر سکتا ہے۔ اس کو پورا حق ہے۔ ہر ملک کو اپنا بين الاقوامی پارٹنر چننے کی مکمل آزادی ہے۔ پاک چين دوستی ہميشہ سے خاص رہی ہے۔ اب سی پيک معاہدے کے بعد اور بھی۔۔۔ البتہ پاکستان اور روس کے بڑھتے رشتے کچھ تعجب کا باعث ہيں۔ رشتوں ميں توازن رکھنے سے ملک مضبوط ہوتے ہيں۔‘‘

 پاکستانی امريکيوں سے اپنی کال کے دوران سفارتکار ہوگلینڈ نے کہا، ’’جو لوگ اس سياسی تناؤ ميں بہتری کے ليے کوشاں ہيں، انہيں چاہيے کے وہ خارجہ پاليسی سازوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سفیروں کا کام غیر سیاسی ہوتا ہونا چاہیے، ’’ايک امريکی سفارتکار کا کام وہاں کے لوگوں کو سمجھنا ہے، جہاں وہ  تعینات ہے۔ اس کا کام یہ نہیں کہ وہ مخصوص سياسی نظريات کو فروغ دے ۔‘‘ اس موقع پر انہوں نے پاک پيک کی کوششوں کو بہت سراہا اور اس آرگنائزیشن کے ساتھ بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔