1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان تجارت کی راہ میں حائل مشکلات

شکور رحیم، اسلام آباد30 اپریل 2014

پاکستان اور افغانستان کے درمیان راہداری تجارت کے پیچیدہ طریقہ کار، رکاوٹوں اور بدعنوانی کی وجہ سے دوطرفہ رسمی تجارت میں کمی آتی جارہی ہے جبکہ آئندہ افغان حکومت کی ترجیحات میں پاکستان کے ساتھ تجارت کا موضوع سر فہرست ہوگا۔

https://p.dw.com/p/1Brh1
تصویر: DW/H. Sirat

مبصرین کے بقول اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد بھی دونوں ممالک دوطرفہ تجارت میں اضافےکے بہترین مواقع سے مکمل استفادہ نہیں کر پائیں گے۔

پاکستان افغانستان مشترکہ ایوان صنعت وتجارت(پی اے جے سی سی آئی) کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ سالانہ کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک باہمی تجارت کو فروغ دے کر خطے میں امن و استحکام اور عوام کی خوشحالی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر جانان موسیٰ زئی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاک افغان تجارت کا حجم اڑھائی ارب ڈالر ہے جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ حجم پانچ ارب ڈالر کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تجارت کے حجم میں چار سے پانچ گنا اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ افغان سفیر کا کہنا تھا کہ افغانستان اس وقت تبدیلی کے سفر سے گزر ہا ہے اور 2014 ء کے بعد دیگر چیلنجوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا چیلنج معاشی استحکام ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اسی سبب صدارتی انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کی ترجیحات میں پاکستان کےساتھ تجارت سر فہرست ہے۔

اس کانفرنس میں شریک خیبر پختوانخواہ چیمبر آف کامرس کے صدر زاہد شنواری کا کہنا تھا کہ حکومتوں کی سطح پر تجارتی تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کے باجود پاک افغان دو طرفہ تجارت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت افغانستان کے ساتھ تجارت کو منافع بخش بنانے کے لئے اپنی پا لیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لائے، ’’جب ہماری تجارت سر پلس ہے، دو اعشاریہ تین ارب ڈالرز میں سے صرف تین سو ملین ڈالرز کی درآمدات ہیں اور دو ارب ڈالرز کی برآمدات ہیں، تو ہمیں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اگر ہم چین کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ کر سکتے ہیں، جو ہماری صنعت کو تباہ کر رہا ہے، تو افغانستان کے ساتھ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ ایسا جلد ہونا چاہیے۔‘‘

دوسری جانب پاکستانی وزارت تجارت کی خاتون جائنٹ سیکرٹری انجم امین کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان دونوں جنوب ایشیائی ملکوں کی تجارتی تنظیم سافٹا کے رکن ہیں۔ اس لئے ان کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے کا دو طرفہ تجارت پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا، ’’ہمارا اگلے پانچ برسوں کا پروگرام ہے کہ ہر سال ہم بتدریج ٹیرف کم کریں گے تو آہستہ آہستہ پانچ فیصد کمی ہو گی۔ پھر اسی طرح آگے بھی غور کریں گے۔ تو اس پس منظر میں اب آزاد تجارت کی افادیت اتنی نہیں رہی۔‘‘

پی اے جے سی سی آئی کے شریک صدر زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں دو طرفہ تجارت کی بہتری میں مشکلات کے باوجود دونوں جانب کے تاجر ان کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم کا مقصد بھی ان مشکلات پر قابو پانا ہے، جن سے دو طرفہ رسمی تجارت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ موتی والا نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان میں پیش آنے والی مشکلات کے سبب اب افغان تاجر ایران کے راستے تجارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی علاقے ’’چاربہار‘‘ کے راستے افغان تاجروں کے سامان لانے اور لے جانے کی لاگت پاکستان کے راستے ترسیل کی نسبت گئی گنا زیادہ ہے، اس لئے وہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔