1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پانچ سو ملین ڈالر کے سولہ طیارے کوڑے میں کیوں؟

مقبول ملک10 اکتوبر 2014

امریکی حکومت نے ملکی فضائیہ سے اس بارے میں جواب طلب کر لیا ہے کہ افغان ایئر فورس کے لیے قریب 500 ملین ڈالر کی لاگت سے خریدے گئے 16 طیارے کابل کے ہوائی اڈے پر کھڑے کھڑے محض 32 ہزار ڈالر مالیت کا دھاتی کوڑا کیسے بنے؟

https://p.dw.com/p/1DTA6
امریکی ایئر فورس کی سیکرٹری ڈیبورا جیمزتصویر: picture-alliance/AP

واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق امریکی حکومت کے قائم کردہ ایک نگران ادارے نے امریکی ایئر فورس سے اس بارے میں وضاحت کے لیے کہا ہے کہ قریب نصف بلین ڈالر کے عوض جو 16 ہوائی جہاز افغان فضائیہ کے لیے خریدے گئے تھے، انہیں تباہ کر کے 32 ہزار ڈالر کا دھاتی اسکریپ کیوں بنایا گیا اور امریکی ٹیکس دہندگان کی رقوم کو اتنی بے دردی سے ضائع کیوں کیا گیا۔

افغانستان کی تعمیر نو کے لیے خرچ کردہ رقوم کے آڈٹ اور ان کے مناسب استعمال پر نظر رکھنے والے انسپکٹر جنرل جان سوپکو نے امریکی ایئر فورس کی سیکرٹری ڈیبورا جیمز سے تحریری مطالبہ کر دیا ہے کہ سوپکو کے دفتر کو ان تمام فیصلوں کا تحریری ریکارڈ پیش کیا جائے، جو C-27J طرز کے ان 16 طیاروں کی خریداری سے لے کر ان کی تباہی کے عمل تک کیے گئے تھے۔

افغانستان کی تعمیر نو کے عمل کے نگران انسپکٹر جنرل جان سوپکو نے ایئر فورس سیکرٹری سے یہ بھی پوچھا ہے کہ 500 ملین ڈالر کے قریب مالیت کے ان ہوائی جہازوں کو قابل استعمال بنانے یا رکھنے کے لیے کوئی متبادل حل کیوں تلاش نہیں کیے گئے تھے۔

Afghanistan Kabul Anschlag Flughafen Taliban
یہ طیارے سالہا سال تک کابل کے ہوائی اڈے پر کھڑے رہے تھےتصویر: Reuters

جان سوپکو کے دفتر کی طرف سے ڈیبورا جیمز کے نام لکھے گئے ایک خط کی میڈیا کو مہیا کردہ تفصیلات کے مطابق یہ 16 طیارے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر سالہا سال تک کھڑے رہے تھے۔ یہی نہیں اسی طرز کے چار اور ہوائی جہاز طویل عرصے سے جرمنی میں ایک امریکی فضائی اڈے پر بھی کھڑے ہیں۔ انسپکٹر جنرل سوپکو کے دفتر نے ایئر فورس سیکرٹری سے یہ بھی پوچھا ہے کہ امریکی فضائیہ اور اس کی اعلیٰ کمان کے جرمنی میں ان امریکی ہوائی جہازوں کے بارے میں مستقبل کے ارادے کیا ہیں۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق واشنگٹن حکومت نے مجموعی طور پر ان طیاروں کی خریداری پر 486 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ یہ ہوائی جہاز اطالوی کمپنی فِن مکینیکا کے ایک ذیلی ادارے آلینیا Alenia سے خریدے گئے تھے لیکن ان کے فاضل پرزوں کی عدم دستیابی کے باعث ان طیاروں کے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کے امکانات شروع ہی سے انتہائی محدود تھے۔

اس سارے معاملے میں امریکی ٹیکس دیندگان کی ادا کردہ رقوم کے ضیاع کا الزام لگا کر کئی غیر سرکاری امریکی ادارے اور اعلیٰ عسکری حکام یہ مطالبہ بھی کرتے رہے تھے کہ اس بارے میں تفصیلی چھان بین کی جانا چاہیے۔ اس پر جان سوپکو کے دفتر نے دسمبر 2013ء میں اپنی طرف سے تحقیقات شروع کی تھیں اور اب باقاعدہ طور پر یہ مطالبہ بھی کر دیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں تمام حقائق دستاویزی شکل میں سامنے لائے جائیں۔

جان سوپکو کے دفتر نے خاص طور پر اس بارے میں بھی وضاحت طلب کی ہے کہ آیا امریکا ہی کے ڈیفنس لاجسٹکس ایجنسی نامی ادارے کی طرف سے تباہ کر کے اسکریپ بنائے جانے سے قبل ان طیاروں کے مختلف حصے اور پرزے نکال کر فروخت بھی کیے گئے تھے۔

اسی بارے میں گزشتہ برس ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں جان سوپکو نے کہا تھا کہ یہ افغانستان میں پیش آنے والا اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں ہے تاہم یہ امر بھی واضح نہیں کہ آیا یہ سارا معاملہ محض بدانتظامی تھا یا مجرمانہ دھوکہ دہی کا کوئی واقعہ۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید