1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پام آئل، کتنا اچھا اور کتنا بُرا

20 جون 2021

پام آئل کے حوالے سے یہ کہنا درست ہے کہ اس کی شہرت اچھی نہیں ہے۔ اس تیل کے بارے میں ویجی آئل انڈسٹری میں کافی حد تک منفی خیالات پائے جاتے ہیں۔ اس تیل کے مثبت اور منفی اثرات پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/3v6ft
Symbolbild I Brandrodung für Palmöl-Plantagen
تصویر: Guido Benschop/AFP/Getty Images

پام آئل دنیا بھر میں سالانہ بنیاد پر خوراک، ویجیٹیبل گھی، جانوروں کی فیڈ اور ایندھن میں استعمال کی چالیس فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس کی طلب مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور جنگلات کا صفایا کر کے اس کے پودے کی کاشت جاری ہے اور یہ عمل بھی ہر گز ماحول دوست نہیں۔

یہ ایک تباہ کن سلسلہ ہے۔ اس وقت انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے علاقے بورنیو اور جزیرہ نما مالے کے  نوے فیصد علاقوں سے زائد پام آئل حاصل کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں کے قدرتی جنگلات کا صفایا ہو چکا ہے۔

Indonesien Palmöl
خالص پام آئل کی اصل شکلتصویر: Imago Images/ZumaPress

جنگل کے خاتے سے کیا ہو گا؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ٹراپیکل جنگلات کا صفایا کیا جاتا ہے تو اس سے جنگلی حیات کے ساتھ ساتھ بے شمار اہم جڑی بوٹیاں بھی اپنے قدرتی ماحول سے محروم ہوتے ہوئے ناپید ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ درخت اور زمین خارج شدہ کاربن کو ذخیرہ کرنے میں انسان کی مددگا کرتے ہیں۔  ماحولیات کے سرگرم کارکنوں کا موقف ہے کہ انسانوں کا بھی یہ چلن ہونا چاہیے کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب کرنے والے قدرتی ذرائع کو تلف نہ کریں۔

طوفانوں، سیلابوں، جنگلاتی آگ اور خشک سالی سے لاکھوں انسان بے گھر

پام آئل کا استعمال بند کیوں نہیں ہو سکتا؟

سری لنکا نے حال ہی میں پام آئل کی ملک میں برآمد پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ملک نے بتدریج پام کے درختوں کی کٹائی کرنے کے منصوبے کو بھی متعارف کرا دیا ہے۔ سری لنکن حکومت پام کے درختوں کی جگہ ربڑ اور ماحول دوست پودے لگائے گی۔ یہ دوسری اقوام کے لیے بھی مثال ہو سکتی ہے۔

SOS-Signal aus Palmenbäumen
انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے علاقے بورنیو اور جزیرہ نما مالے کے  نوے فیصد علاقوں سے زائد پام آئل حاصل کیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/Cover Images/E. Zacharevic

ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ پام آئل سے یکدم چھٹکارا حاصل کرنا آسان ہے اور رفتہ رفتہ ایسا کرنے میں مسائل جنم لینا شروع کر دیتے ہیں۔ اس تیل کو چاکلیٹ اسپریڈز کا بھی ایک لازمی جزو خیال کیا جاتا ہے، جو بچوں، بڑوں سب کی من پسندیدہ چیز ہے۔ پام آئل کا استعمال آہستہ آہستہ خواتین کے کاسمیٹکس کے علاوہ ادویات سازی، صنعتی شعبے اور پسندیدہ اسنیکس کے علاوہ کار سازی میں بھی سرایت کر چکا ہے۔

یورپ میں پام آئل کا استعمال

یورپی اقوام میں اس تیل کا استعمال قدرتی ایندھن کے طور پر کیا جاتا ہے۔ بقیہ اشیا میں اس کی حاجت اتنی زیادہ نہیں ہے۔ بائیو فیول میں پام آئل کے استعمال سے یہ پیٹرولیم مصنوعات کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ماحول کو نقصان پہچانے والی گیسوں کا اخراج کرتا ہے۔ اس تناظر میں قدرتی ایندھن کے طور پر اس کا استعمال کسی بھی طور پر ماحول دوست نہیں قرار دیا جا سکتا۔

نیدرلینڈز کے رقبے کے برابر بارانی جنگلات جلا یا کاٹ دیے گئے

چند برس قبل یورپی یونین نے پام آئل کے بائیو فیول کے طور پر استعمال پر پابندی عائد کرنے کی منصوبہ بندی ضرور کی تھی۔ اس منصوبے کے خلاف چند ہی مہینوں کے اندر انڈونیشیا اور ملائیشیا کے پام آئل برآمد کرنے والے بڑے تاجروں نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں یورپی یونین کے خلاف ایک شکایت درج کرا دی تھی۔ اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں آیا۔

Weltspiegel 14.04.2021 | Indonesien 2019 | Palmölplantage
پام آئل اب کاسمیٹکس، ادویات سازی، صنعتی شعبے، پسندیدہ اسنیکس اور کار سازی میں بھی سرایت کر چکا ہےتصویر: Willy Kurniawan/REUTERS

پام آئل چاہیے یا نہیں

یہ ضرورت ہے اور واقعی اس پر مکمل پابندی شاید درکار نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پام آئل کے ساتھ دوسرے پودوں کو اگانے اور ٹراپیکل جنگلات کو تلف کرنے کی پالیسی کو ترک کرنا ہو گا۔ یہ تمام عمل پام آئل کی پروڈکشن کے ساتھ شروع کیا جانا از حد ضروری ہے۔

سن 2004 میں پام آئل کی صنعت میں شامل تاجروں نے مشاورت جاری رکھنے کا ایک ادارہ 'راؤنڈ ٹیبل آن سسٹین ایبل پام آئل‘ (RSPO) قائم کیا۔ اس کے اراکین میں ماحول اور جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف (WWF) بھی شامل ہے۔ اس ادارے نے اپنی ویب سائیٹ پر یہ درج کر رکھا ہے کہ پام آئل معاشرتی اقدار اور ماحول دوست انداز میں ذمہ داری کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔

جرمنی میں جنگل کم کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟

سینکڑوں پام آئل تیار کرنے والی کمپنیوں نے RSPO کی مہر حاصل کر رکھی ہے اور وہ ان کی مصنوعات پر چھاپی جاتی ہے۔ ایسا رویے اپنانے کی ماحول دوست کارکنوں اور کئی اداروں نے مذمت کی ہے۔ ان میں ایک ادارہ گرین پیس ہے اور اس کا کہنا ہے کہ RSPO کے معیار پر انتہائی کم توجہ دی جا رہی ہے۔

Symbolbild I Brandrodung für Palmöl-Plantagen
پام آئل کے ساتھ دوسرے پودوں کو اگانے اور ٹراپیکل جنگلات کو تلف کرنے کی پالیسی کو ترک کرنا ہو گاتصویر: Ulet Ifansasti/Getty Images

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

یہ ایک بہت مشکل سوال ہے۔ گرین پیس نامی تنطیم کے ساتھ کئی دوسری ماحول دوست تنظیمیں مختلف ممالک کی حکومتوں پر دباؤ بڑھا رہی ہیں کہ وہ پام آئل انڈسٹری کو ذمہ داری کاثبوت فراہم کرنے کا اپنا اجازت نامہ جاری کرے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ماحولیاتی انحطاط کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی۔

’گوشت خوری انسانوں کو بے گھری دیتی ہے‘

انسانی حقوق سے مراد اس انڈسٹری کے ساتھ جڑے ملازمین کو مناسب حق دلوانا ہے۔ اس عمل کو متعارف کرانے سے ماحول دوستی کا جہاں حق ادا ہو گا وہاں پام آئل کا مصنوعات میں استعمال بھی محدود کیا جا سکے گا۔

ٹامزین والکر ( ع ح / ک م)