1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجو افغان سرحد پر موجود، اقوام متحدہ

27 جولائی 2021

پاکستان افغان سرحد پر موجود یہ عسکریت پسند نہ صرف اسلام آباد بلکہ بیجنگ حکومت کے بھی خلاف ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق'اختلافات کے باوجود‘ ان جنگجوؤں کے افغان طالبان سے بھی ماضی جیسے روابط برقرار ہیں۔

https://p.dw.com/p/3y7O9
Pakistan Taliban-Führer Mullah Fazlullah
تصویر: picture-alliance/dpa/Ttp

اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ''اختلافات کے باوجود‘‘ تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے مابین پہلے جیسے ہی تعلقات قائم ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں پاک افغان سرحد کے قریب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ہزاروں تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ '’بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کے باوجود‘‘ طالبان کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات حسب سابق برقرار ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے لیے تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے قریب کالعدم عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تقریباً چھ ہزار تربیت یافتہ جنگجو موجود ہیں۔

اقوام متحدہ کی '’تجزیاتی معاونت اور پابندیوں‘‘ کی نگرانی کرنے والی ٹیم کے سربراہ ٹی ایس تریمورتی نے پیش کردہ اس رپورٹ میں افغانستان کی سرحد کے قریب بیجنگ مخالف سینکڑوں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی بھی تصدیق کی ہے۔

Afghanistan | Menschenmenge auf Fahrzeugen mit Taliban Flaggen in Chaman
تصویر: Abdul Khaliq Achakzai/REUTERS

ٹی ٹی پی اور طالبان میں تعلقات برقرار

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالانکہ ٹی ٹی پی پر عائد پابندیوں کی وجہ سے طالبان اور اس گروپ کے مابین جھڑپیں ہو چکی ہیں اور دونوں کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ بھی ہوا ہے تاہم ان سب کے باوجود دونوں میں تعلقات پہلے جیسے ہی قائم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور افغانستان، تلخیاں کب اور کیسے پیدا ہوئیں؟

رپورٹ کے مطابق، ”دسمبر 2019 اور اگست 2020 کے عرصے میں افغانستان میں ٹی ٹی پی اور بعض گروپوں کے درمیان دوبارہ اتحاد ہوا۔ اس میں شہر یار محسود گروپ، جماعت الاحرار، امجد فاروقی گروپ اور عثمان سیف اللہ گروپ (جو پہلے لشکر جھنگوی کے نام سے مشہور تھا) شامل تھے جبکہ القاعدہ نے مبینہ طورپر ان گروپوں کے مابین ثالثی کا کردار ادا کیا۔"

رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی پاکستان کی سرحد کے قریب صوبہ ننگر ہار میں موجود ہے۔ اقو ام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الگ الگ گروپوں کی ٹی ٹی پی میں شمولیت سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ نور ولی محسود اس گروپ کی قیادت کر رہے ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق مسلح جنگجوؤں کی تعداد اس وقت ڈھائی سے چھ ہزار کے درمیان ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس گروپ کے مقاصد نہ صرف پاکستان مخالف ہیں بلکہ یہ افغانستان کے اندر افغان فورسز کے خلاف افغان طالبان کی مدد بھی کرتے ہیں۔

Russland Afghanistan l PK der Anführer der Taliban-Bewegung in Moskau
طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان میں اس وقت کوئی بھی غیر ملکی دہشت گرد جنگجو موجود نہیں ہےتصویر: Dimitar Dilkoff/AFP

طالبان اور القاعدہ میں تعلقات برقرار

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان اور القاعدہ میں قریبی تعلقات اب بھی برقرار ہیں اور ان میں اختلافات کی کوئی علامت دکھائی نہیں دی۔ رپورٹ کے مطابق، ”دونو ں کے درمیان تعلقات کم ہونے کے بجائے مزید گہرے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ باہمی شادیاں، مشترکہ جدوجہد  اور اب دوسری نسل کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہے۔"

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ حالانکہ دوحہ معاہدے سے طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات میں دوری ہونے کے توقعات پیدا ہوئی تھیں تاہم شواہد اور واقعات سے اس کی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ اقو ام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ اس وقت افغانستان کے پندرہ صوبوں بالخصوص مشرقی، جنوبی اور جنوب مشرقی علاقوں میں موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان: افغان طالبان کی حمایت میں اضافہ، اثرات کیا ہوں گے؟

دوسری جانب طالبان نے اقوام متحدہ کے اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں اس وقت کوئی بھی غیر ملکی دہشت گرد جنگجو موجود نہیں ہے۔ طالبان نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر اس حوالے سے ”جھوٹی اطلاعات فراہم کرنے" کا الزام لگایا ہے۔

اس رپورٹ میں چین کے ساتھ افغانستان کی سرحد کے قریب بیجنگ مخالف سینکڑوں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔

ج ا/ ا ا